اسحاق منگریو: میرے تخیلات کا صحافی: بابر علی پلی
محسوس ہوتا که شاید یه وه صحافت اور صحافی جو میں نے سوچ رکھے ہے محض میرے تخیل کی اختراع ہیں. لیکن، کچھ وقت قبل جانا که دور حاضر میں بھی ایسا ایک صحافی ہے جو که میرے تخیلات سے آگے حقیقی صحافتی کردار ہے. عید کے روز خبر ملی که میرے تخیلات کا صحافی اسحاق منگریو اپنے دوست حسن درس کی برسی کے روز حسن درس سے جا ملا. اس روز محسوس یوں ہوا که اشرف پلی کی تخیلات میں بسا بدین کے ساحل کے ساتہ بیٹھا آدو ملاح بیحد اداس تھا، تھر کے پیاسے اور تپتے صحراء میں ماحولیاتی دشموں کے نشانوں سے سینہ چاک روہیڑو، کونبھٹ اور کنڈی مزید سکڑنا شروع هوگئے، نوابشاه کے کسان بھی گویا لاوارث ہوگئے، تھر کول کی ماحولیاتی تباہکاریوں کا چاره ساز اور غمگسار نہیں رہا یه خبر شاید تھر کے ان قصبوں کی مٹی نے بھی بھانپ لی ہے جس کا دامن اب کوئی جار اگانے سے بانجه ہوگیا ہے. اسحاق سندھ کے اس ضلعہ سانگهڑ سے تعلق رکھتے تھے جہاں ایک نہایت ہی چالاک اونٹ گهاس کھانے کی پاداش میں اپنی ایک ٹانگ گنوا بیٹھا. اُن دنوں اسحاق ٹھیک ہوتے تو اس اونٹ کی درد کتھا ضرور بیان کرتے. لیکن، اونٹ کے درد اور چیخوں اور اسحاق کے قلم کے مابین گردوں کی تکلیف حائل ہوگئی. اسحاق کی صحافت کا محور ہمیشه عام لوگ رہے. ان کی صحافت حیدرآباد کے قاسم آباد کے ان جوگیوں کی بستی کی آواز بھی بنی جو بڑے بنگلوں والے علاقے کی سب سے پرانی بستی ہونے کے باوجود ہر بنیادی سہولت سے محروم رہی. اسحاق کا صحافتی مدار ان لوگوں کی کهانیاں تھا جن کے لئے چاہے سیلاب ہو یا وبا کسی کے پاس امداد نہیں. اسحاق کی صحافت ان کسانوں کی بھی ہمنوا و ہمدرد بنی جن کی زمینیں سرمائیدارانہ دھوئیں میں سیاہ هوچکی ہیں. ان کے مطابق "صحافی کا اولین کام سوال اٹھانا هے، صحافی سوال اٹھانا چھوڑ دے تو صحافی کے پاس باقی کچھ نهیں."
تاحال، صحافت سرخیوں میں نیوز اسٹوریز کے ذریعے ہوتی رہے. لیکن، اسحاق کو منفرد مقام اس طرح بھی حاصل تھا که انہوں نے نہ صرف نیوز اسٹوریز بلکه اپنے آرٹیکلز کے ذریعے بھی صحافت کی اور کئی اسٹوریز ان کے آرٹیکلز کے ذریعے قارئیں کو پڑھنے کے لئے ملتی رہیں. سانگهڑ اور خیرپور کے ریگستانوں میں عرب شکاری کیمپوں کی مقامی آبادیوں پر مظالم جو اس سے پھلے کبھی رپورٹ نہ ہوسکے، وه درد بھری کہانیاں بھی اسحاق منگریو کے آرٹیکلز کے ذریعے لوگوں تک پھنچے.
اسحاق منگریو نے اوائل میں طلباء سیاست، اس کے بعد قومپرست سیاست اور پھر ترقی پسند سیاست میں حصه لیا. لیکن، تقریباً نوے کی دہائی سے انہوں نے باقائدہ صحافت شروع کی. اس کے بعد وه تاعمر صحافی ہی رہے. جیتے جی تک کبھی بھی خود کو اور اپنی صحافت کو مرنے نہیں دیا. وسعت ﷲ خان کے بقول "جو صحافی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں ان میں سے اسحاق منگریو بھی کم ہو گیا. یعنی صحافت اور کمزور ہوگئی."
صحافت ایکسکلیسو اسٹوریز سے نکل کر اب جاکر فیسبک پوسٹ تک محدود ہوئی ہے، اس دور میں جہاں مجموعی طور پر صحافیوں میں کسی بھی خبر کو کرید کر تھہ در تھہ سچ ڈھونڈنے کے بجائے اپنی صحافت کو ایک منافع بخش کاروبار اور ہمه وقت برائے فروخت کی طور پر پیش کرنے کا رجحان ہے، وہاں اسحاق منگریو آخری دم تک اصولی صحافت، مقامی کہانیوں اور ایسی اسٹوریز جو طاقت کے ملبے تلے دب جاتی انہیں کرید کر منظر عام پر لانے والی اعلیٰ صحافتی اقدار سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے.
اب وه جو نہیں تو سوچتا ہوں که اب خیرپور ناتھن شاه اور جهڈو کے ڈوبنے پر سوال اٹھانے والا کون ہے؟ منچھر کے ٹوٹنے اور ایل بی او ڈی کے الٹے بہنے پر پریشان ہونے والا کون ہے؟ اب میرے تخیلات کا صحافی کون ہے؟
https://www. humsub. com. pk/554013/babar-ali-palli-21/