شخصيتون ۽ خاڪا

يادون ۽ ڳالھيون (شيخ عزيز بابت لکڻيون)

هي ڪتاب نامياري صحافي ۽ ليکڪ شيخ عزيز جي لاڏاڻي تي علمي، ادبي ۽ صحافتي خدمتن بابت لکڻين تي مشتمل آھي، جنھن جو سھيڙيندڙ طارق عزيز شيخ آھي. مھيش ڪمار لکي ٿو:
”شيخ عزيز سنڌي صحافت جي استاد صحافي طور مڃيو ويندو هو. هن جا تربيت ورتل ڪيترا ئي اخباري ڪارڪن پنهنجي وقت جا ڪامياب صحافي بڻيا. اليڪٽرانڪ ميڊيا ۾ نالي وارين شخصيتن ۾ سندس لائق شاگرد ڪامياب نظر آيا. سندس صحافتي ڪم فقط سنڌي اخبارن لاءِ يادگار ناهي، بلڪه اردو ۽ انگريزي اخبارن ۾ به سندس خدمتون هميشه ياد رکڻ جهڙيون آهن. هن سدائين سنڌ جي حق ۾ ڪيس کي اڳتي وڌايو. عوامي، سياسي، تاريخي توڙي ثقافتي حوالي سان پاڻ هزارين مضمون پڻ لکيائين. شيخ عزيز سنڌ جو سرمايو هو. هن جي لکڻين سان ايوانن کان وٺي مختلف کاتن ۾ هلچل مچي ويندي هئي. سنڌي صحافت جي ھن روشن ستاري کي سدائين سٺن لفظن ۾ ياد ڪيو ويندو.“
Title Cover of book يادون ۽ ڳالھيون (شيخ عزيز  بابت لکڻيون)

شیخ عزیز: صحافت کے قابل فخر دور کا صحافی : ظہیر احمد

شیخ عزیز: صحافت کے قابل فخر دور کا صحافی : ظہیر احمد

شیخ عزیز ان معدودے چند لوگوں میں سر فہرست تھے جن کی مادری زبان سندھی ہونے کے باوجود جنہوں نے سندھی، اردو اور انگریزی صحافت کے قابل فخر دور کی اہم شخصیت کا درجہ پایا۔ 9 دسمبر 1938 کو پیدا ہونے والے منفرد طرز کے اس مثالی صحافی کا سفر زندگی 7 اکتوبر 2018 کو اختتام پذیر ہوا۔ 1968 میں لندن سے جرنلزم میں ڈپلومہ کرنے والے شیخ عزیز اپنے دور کے پہلے سندھی صحافی تھے جو لندن سے صحافت کی تعلیم حاصل کرکے آئے تھے۔ انہوں نے حصول تعلیم کے بعد جون 1957 میں روزنامہ "کارواں" حیدرآباد سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا لیکن پھر ایک سال بعد ہی روزنامہ "عبرت" حیدرآباد سے وابستہ ہوگئے اور وہی ان کی مستحکم شناخت بنا۔ شیخ عزیز نے اپنی زندگی کے 80 برس میں سے نصف صدی کا عرصہ صحافت کو دیا۔ شیخ عزیز میرے دوست اس لئے نہیں ہوسکتے تھے کہ وہ مجھ سے بہت سینئر تھے لیکن ان کی صلاحیت اور اسٹائل کا میں معترف رہا۔ بس میرے لئے یہی بات قابل اطمینان ہے کہ میں نے شیخ عزیزز جیسے حقیقی صحافی کا قابل فخر دور دیکھا، شیخ عزیز سے ملاقاتیں رہیں اور ہم ایک ساتھ حیدرآباد پریس کلب کے ممبر رہے۔ 5 جولائی 1977 کو پیپلز پارٹی کیی حکومت ختم ہونے کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو مقدمہ قتل میں گرفتار کر کے جیل پہچا دیئے گئے تھے تو بے نظیر بھٹو صاحبہ نے سیاست میں قدم رکھا تھا۔ اس مرحلے پر وہ اپنے اسیر والد کی پارٹی کو مایوسی سے بچانے اور متحرک کرنے کے لئے 16 فروری 1978 کو حیدرآباد پریس کلب "میٹ دی پریس" پروگرام سے خطاب کے لئے تشریف لائیں تو بہ حیثیت جنرل سیکریٹری مجھے خیر مقدمی تقریر کرنے اور ان کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا۔ شیخ عزیز بھی میرے ساتھ بائیں طرف پہلی نشست پر بیٹھے تھے اور کلب کی پرانی عمارت کے ہال میں میں ، میرے اور شیخ عزیز کے درمیان تکون میز پر بے نظیر بھٹو صاحبہ کے اس وقت کے سیکریٹری کو جگہ ملی تھی۔ یہ یادگار تصویر شیخ عزیز کے بیٹے خرم عزیز نے اپنے واٹس ایپ میں محفوظ کی ہوئی ہے۔ اس وقت شیخ عزیز "سندھ نیوز" کے ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے بھٹو صاحب کے دور ہی میں 1975 کے دوران "عبرت" کو چھوڑ دیا تھا جس کے ساتھ ان کی 1958 سے 17 سال وابستگی رہی۔ جب 1976 میں قاضی محمد اکبر نے انگریزی ہفت روزہ "سندھ آبزرور" کا اجراء کیا اور ان کے ہونہار بیٹے سلیم اکبر قاضی نے انگریزی جریدے کے ساتھ سندھی روزنامہ "سندھ نیوز" کے اجراء کی منصوبہ بندی کی تو شیخ عزیز کو ایڈیٹر کی حیثیت سے منتخب کیا گیا لیکن افسوس کہ سلیم اکبر قاضی کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ صرف انگریزی جریدے کے اجراء کے بعد جس کا عارضی دفتر یونیورسل بک ڈپو بالمقابل سینٹ میری اسکول کی نو تعمیر شدہ عمار ت میں قائم ہوا تھا، سپر ہائی وے پر ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔ بعد ازاں گاڑی کھاتہ میں ریشم بازار جانے والے راستے کے قریب رونامہ "سندھ نیوز" کا افتتاح اس وقت کے وزیر اعلیٰ غلام مصطفیٰ جتوئی نے کیا۔ قاضی اکبر جب 1970 سے قبل روزنامہ "عبرت" کے ایڈیٹر ان چیف (مالک مدیر) ہوا کرتے تھے تو "عبرت" کو سندھی کے "جنگ" کا درجہ حاصل تھا۔ پھر 1970 کے بعد "عبرت کے ایڈیٹر ان چیف قاضی عبد المجید عابد بن گئے جبکہ قاضی محمد اکبر نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد پرتگال میں اسی طرح سفیر بننا قبول کرلیا جس طرح ممتار دولتانہ نے برطانیہ میں سفیر بننا قبول کرکے سیاست ترک کردی تھی۔ قاضی محمد اکبر نے پرتگال سے واپس آکر بائیں بازو کے خیالات رکھنے والے اپنے بیٹے سلیم اکبر قاضی کے خوابوں کی تکمیل کے لئے اپنے تجربات کو صحافت میں بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا تو "سندھ آبزرور" اور "سندھ نیوز" کے لئے شیخ عزیز کا نام بطور ایڈیٹر منتخب کیا جو سلیم اکبر قاضی کی طرح ہی بائیں بازو کے خیالات رکھنے والے پروگریسو جرنلسٹ کی حیثیت سے با صلاحیت ہونے کی شناخت رکھتے تھے۔ "سندھ نیوز" قاضی محمد اکبر کے نام اور شیخ عزیز کی مسلمہ صلاحیتوں کے باوجود صحیح معنوں میں جگہ نہ بنا سکا اور "عبرت" نے اپنا مقام برقرار رکھا، لیکن جب شیخ عزیز 1980 میں "سندھ نیوز" کے ساتھ ساتھ حیدررآباد کو بھی چھوڑ کر کراچی چلے گئے تو سلیم اکبر قاضی کے بھائیوں (محمد علی قاضی اور اسلم اکبر قاضی) نے سندھی روزنامہ "کاوش" کا اجراء کیا ور اسے اشاعت کے اعتبار سے بہت بڑا اخبار بنا دیا۔ "کاوش" کی کامیابی اور "سندھ نیوز" جس کے بطن سے "کاوش" کا جنم ہوا ، کی ناکامی میں بنیادی فرق کس بات کا تھا یہ ایک الگ بحث طلب موضوع ہے۔ شیخ عزیز نے کراچی میں روزنامہ "جنگ" سے وابستگی کے بعد 1980 سے 1982 تک اسسٹنٹ ایڈیٹر میگزین کے فرائض ادا کئے۔ پھر وہ "ڈان" گروپ کے زیر انتظام شائع ہونے والے اپنے وقت کے مشہور اردو اخبار "حریت" کے 1982 سے 1987 تک میگزین ایڈیٹر رہے۔ بعد ازاں دو سال تک اسی اخبار کے نیوز ایڈیٹر رہنے کے بعد اپریل 1989 میں "ڈان" میں سب ایڈیٹر کے فرائض ادا کرنے لگے اور جولائی 2000 سے جولائی 2008 تک ایڈیشن انچارج کی حیثیت سے کام کیا۔ "ڈان" میں اپنے فرائض کی ادئیگی کے دوران ایک بار انہیں کسی خبر پر ریاستی ادارے کے جبر اور صعوبت کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ چونکہ سابق وزیر تعلیم پیر مظہر الحق سے شیخ عزیز کے مراسم "عبرت" کے زمانے سے مثالی رہے تھے۔ جب پیر مظہر الحق زیر تعلیم تھے اور اپنے نانا قاضی محمد اکبر کے اخبار "عبرت" میں صحافت سے جزوی طور پر وابستہ ہو گئے تھے، لہٰذا شیخ عزیز کو "ڈان" سے ریٹائرمنٹ کے بعد پیر مظہر الحق کے سبب سندھی ادبی بورڈ جامشورو میں 2008 سے 2011 تک بہ حیثیت وائس چیئر مین کام کرنے کا موقع ملا۔ صحافت کی دنیا میں آنے سے قبل بھی شیخ عزیز نے 1956 اور 1957 کے دوران سندھی ادبی بورڈ میں ریسرچ اسسٹنٹ کی حیثیت سے کام کیا تھا اور صحافت میں قدم رکھنے کے بعد وہ جز وقتی طور پر 1960 تک تین سال ریسرچ اسسٹنٹ رہے جبکہ "سندھ آبزرور" اور "سندھ نیوز" سے وابستگی کے دوران 1978 سے 1980 تک سندھ یونیورسٹی جامشورو کے جرنلزم ڈپارٹمنٹ میں وزیٹنگ پروفیسر کی ذمہ داری نبھائی۔ جب آغا رفیق جرنلزم ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین بنے تو انہوں نے ڈپارٹمنٹ کی لائبریری کو شیخ عزیز کے نام سے منسوب کردیا تھا۔ شیخ عزیز کو 1963 اور 1966 میں حیدرآباد پریس کلب اور 1974 میں حیدرآباد یونین آف جرنلسٹ کا صدر بننے کا اعزاز حاصل تھا۔
جب 25 جولائی 1974 کو مولانا کوثر نیازی وفاقی وزیر اطلاعات کی حیثیت سے حیدرآباد پریس کلب آئے تو میں نے نائب صدر پریس کلب کی حیثیت سے کچھ دیگر صحافیوں کے ساتھ چائے کی میز پر مولانا کوثر نیازی سے شیخ عزیز کے سلسلے میں بات کی اور یہ درخواست کرنے والوں میں میرا بھی حصہ تھا کہ شیخ عزیز کو ماسکو کے دورے کی دعوت پر حکومت پاکستان قدغن نہ لگائے اور اجازت دے دی جائے۔
ایک دلچسپ واقعہ بھٹو صاحب ہی کے دور کا مجھے کبھی نہیں بھول سکتا۔ جناب اشتیاق اظہر (بعد ازاں ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر سینیٹر ہوئے) کو بھٹو حکومت نے دیگر سرکاری افسروں کی طرح جبری طور پر برطرف کرکے بے روزگار کردیاتھا۔ وہ حیدرآباد میں محکمہ اطلاعات سندھ کے دبنگ ڈائریکٹر تھے اور بہت قابل افسروں میں شمار ہوتے تھے۔ اشتیاق اظہر نے ملازمت سے فارغ کئے جانے پر روس کے قونصل خانے میں جو طارق روڈ سے ملحقہ سڑک پر قائم تھا ان کے رسالے "طلوع" کے حوالے سے ملازمت کرلی۔ بھٹو حکومت کے آخری مہینوں میں ایک روزوہ روسی قونصل جنرل کو لے کر حیدرآباد آئے تو پریس کلب میں وزٹ کے دوران انہوں نے مجھے اور نثار چنا کو بہ حیثیت عہدیدار (جنرل سیکریٹری اور صدر) سارڈینیا ہوٹل (سابقہ اورینٹ ہوٹل) میں ڈنر کی دعوت دی اور ساتھ شیخ عزیز، سید نایاب حسین اور رشید نیاز سے بھی شریک ہونے کو کہا۔ سید نایاب حسین "انڈس ٹائمز" کے ایڈیٹر رہ چکے تھے جو اپنے وقت کا حیدرآباد سے شائع ہونے والا بہت عمدہ اور مکمل اخبار تھا، لیکن "انڈس ٹائمز" کو ایک عشرے سے زیادہ جارے رکھنے کے بعد اس کے مالک نے خود ہی اسے بند کردیا تھا، چنانچہ نایاب حسین اور رشید نیاز سمیت بہت سے نامور صحافی بے روزگار ہونے والوں میں شامل تھے۔ نایاب حسین نے ایک عرصہ تک ریڈیو پاکستان کے ذریعہ جیب خرچ کا راستہ نکالا، پھر وہ ملک سے باہر چلے گئے جبکہ رشید نیاز کو طویل عرصے بے روزگار رہنے کے بعد "ڈان" میں سب ایڈیٹر کی ملازمت مل گئی تو وہ کراچی منتقل ہوگئے۔
سید نایاب حسین انگریزی پر عبور رکھنے والے نابغہ روزگار مثالی شخص تھے اور شیخ عزیز سے ان کی قربت کی ایک وجہ انگریزی دانی بھی تھی۔ اشتیاق اظہر صاحب نے میرے ساتھ رشید نیاز کو بھی ڈنر پر اس لئے مدعو کیا کہ وہ، میں اور رشید نیاز علیحدہ بیٹھ کر گفتگو کرتے رہیں گے جبکہ روس کے قونصل سے نثار چنا، نایاب حسین اور شیخ عزیز "شہد" کے موضوع پر گفتگو کر چکیں گے تو پھر ہم سب ڈنر کر لیں گے۔ لیکن "شہد" نے فوری اثر دکھایا تو شیخ عزیز اور نایاب حسین دونوں کی ترقی پسندی یکایک رخصت ہوگئی اور انہوں نے انگریزی کے ساتھ اردو اور سندھی میں بھی قونصل جنرل کو لتاڑنا شروع کردیا کہ "تم باسٹرڈ روسی ہمارے گرم پانی کے سمندر تک آنے کے لئے بیتاب ہو"۔ اشتیاق اظہر صاحب نے یہ منظر دیکھا تو کانپتے ہوئے مجھے اور نثار چنا کو رشید نیاز کے ساتھ کمرے سے باہر لاکر التجا کی کہ مہربانی کر کے انہیں لے جاؤ ورنہ میری نوکری ختم ہوجائے گی، قونصلر اردو بھی سمجھتا ہے اور سندھی بھی، جبکہ نایاب حسین اور شیخ عزیز اسے ہر زبان میں لعن طعن کر رہے ہیں۔ اشتیاق اظہر کی نوکری بچانے کے لئے ہم نے ڈنر پر "فاتحہ" پڑھی اور طے پایا کہ نثار چنا اپنی ویسپا پر شیخ عزیز کو ان کے گھر تک (تالاب نمبر 3 کا علاقہ) پہچائیں گے اور میں نایاب حسین کو لطیف آباد ان کے گھر تک لے جاؤں گا جبکہ رشید بھائی پیدل اپنے گھر جائیں گے۔ شیخ عزیز بلاشبہ بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے جانے پہچانے شخص تھے اور نایاب حسین بھی کھدر پوش یا سفید کرتا پاجامہ پہننے والے لبرل ترقی پسند تھے، مگر دونوںن اپنے ملک کے حوالے سے من کے سچے اور اجلے تھےجس کا ثبوت مذکورہ واقعہ ہے۔ یہاں یہ ذکر بھی ہو جائے کہ اشتیاق اظہر روسی قونصلر کو لے کر اگلے روز تھرپارکر گئے تو بھٹو حکومت نے اسے "ناپسندیدہ" قرار دیکر ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا جبکہ اشتیاق اظہر کو بھی مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد ازاں اشتیاق اظہر "جنگ" اور "نوائے وقت" سے وابستہ ہوئے اور جب ایم کیو ایم بنی تو کچھ عرصے بعد اس کی پہلی صف میں ہونے کے باوجود زیادہ عرصے ساتھ نہ چل سکے اور کنارہ کش ہوگئے۔ شیخ عزیز کی شادی 8 نومبر 1969 کو اس وقت ہوئی تھی جب وہ لندن سے جرنلزم میں ڈپلومہ کرکے وطن واپس آئے تھے۔ ان کی اولاد میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ طارق عزیز شیخ (جنہیں وہ پیار سے شاھ لطیف کی شاعری کے استعارے کے تعلق سے رانو کہہ کر پکارتے تھے) نے تدریس کا پیشہ اپنایا، تاہم مضمون نگاری بھی کرتے ہیں، وہ نیشنل کالج کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ڈاکٹر شہلا عزیز ان دنوں انگلینڈ میں ہیں جبکہ قبل ازیں جناح ہسپتال اینڈ یونیورسٹی کراچی سے وابستہ تھیں۔ خرم عزیز شیخ سندھ اریگیشن اینڈ ڈرینج اتھارٹی (سیڈا) کے سیکریٹریٹ بیراج کالونی حیدرآباد میں سیکریٹری "سیڈا" کے اہم منصب پر فائز ہیں اور منیزہ عزیز شیخ بیکن ہاؤس کراچی کی ریجنل کوآرڈینیٹر ہیں ۔ شیخ عزیز اس لحاظ سے خوش قسمت رہے کہ ان کے چاروں بچوں نے اعلیٰ تعلیم پائی، ان کی شادیاں ہو گئیں اور شیخ عزیز نے دادا اور نانا بننے کا لطف بھی اٹھایا۔ شیخ عزیز کے گھرانے کا تعلیم و تدریس سے رشتہ نیا نہیں ہے۔ شیخ عزیز کے بڑے بھائی شیخ اسماعیل پرائمری ٹیچر ایسوسی ایشن سندھ کے عہدیدار کی حیثیت سے معروف تھے۔ شیخ عزیز نے بھی ریسرچ اور تصنیف وتالیف سے ناطہ سحافت کی شب و روز مصروفیات کے باوجود قائم رکھا اور مختلف کتابوں کے مصنف اور مرتب ٹہرے۔
شیخ عزیز کے انتقال پر میں نے خرم عزیز شیخ سے تعزیت کے بعد ایک نشست میں ان کے سفر آخرت پر گفتگو کی تو بہت افسوس ہوا کہ جب ایسے نامور لوگوں کو سندھ میں علاج معالجہ کی اچھی سہولت نہیں مل سکتی تو پھر غریبوں اور گمنام لوگوں پر کیا گذرتی ہوگی۔ خرم عزیز شیخ نے بتایا کہ بابا کی طبیعت اتوار 7 اکتوبر کو سپر ہائی وے پر نوری آباد کے نزدیک خراب ہوئی تھی اور انہوں نے دل کی شدید تکلیف محسوس کی تو ہم کراچی کے بجائے انہیں حیدرآباد میں نو تعمیر "این آئی سی وی ڈی" لے آئے۔ یہاں ڈاکٹر احسان کی ٹیم موجود تھی لیکن ہمارے اصرار کے باوجود انہوںن نے انجیوپلاسٹی سے انکار کردیا اور ہمارے انتہائی قیمتی دو گھنٹے ضائع کردئے، چنانچہ ہم بابا کو "این آئی سی وی ڈی" کراچی لے گئے لیکن وہاں بھی حیدرآباد سے زیادہ صوتحال خراب دیکھی، کئی مریض اسٹریچر پر تڑپتے رہے اور اسٹریچر فرش پر رکھے تھے۔ کوئی نہیں تھا کہ ان مریضوں کو بستر پر منتقل کرکے ابتدائی علاج شروع کرے۔ ہمارے سامنے ہی چار مریضوں نے دم توڑا۔ ہمیں بابا کے ہارٹ اٹیک پر معلوم ہوا کہ علاج کی بہترین سہولتوں کے دعوے کے تعلق سے سب جھوٹ بولا جارہا ہے کہ ہم نے یہ کردیا، وہ کردیا۔ کچھ نہیں ہے۔ پورے صفحہ کے رنگین اخباری اشتہارات کی سرخی ہوتی تھی "علاج کی جدید سہولیات، ہر فرد کا حق، ہر فرد تک" اور یہ دعویٰ کسی بھی دوسرے صوبے سے بڑھ کر سندھ بھر میں علاج کی جدید، معیاری اور مفت سہولیات ، لیکن حیدرآباد سے کراچی تک برا حال دیکھ کراور کئی گھنٹے ضائع کرنے کے بعد ہم آغا خان ہسپتال گئے جہاں بابا کی انجیوپلاسٹی تو ہوئی لیکن تھوڑی دیر بعد ہی دم توڑ گئے۔ کاش ہم انہیں پہلے مرحلے میں آغا خان یا طبہ ہسپتال لے گئے ہوتے تو شاید ان کی جان بچ جاتی۔ جب خرم عزیز مجھے یہ افسوس ناک روداد سنا رہے تھے تو میں نے بہت کرب کے ساتھ صرف اتنا کہا کہ اگر شیخ عزیز کو اتنی خدمات کے بعد بھی ہمارا سماج مناسب علاج کی سہولت نہں دے سکا تو پھر کسی غریب اور پسماندہ شخص کا تحفظ کیا کرے گا۔ اس موقع پر مجھے ریڈیو پاکستان کے سابق اسٹیشن ڈائریکٹر، مثالی صداکار اور قلم کار نصیر مرزا کا 14 اکتوبر کو شیخ عزیز کے انتقال پر "کاوش" میگزین میں چھپنے والا مضمون یاد آیا کہ کس طرح و جد اور عقیدت کے ساتھ انہوں نے شیخ عزیز کا تذکرہ کیا ہے اور یادوں کے دیپ جلائے ہیں ، حالانکہ وہ شخص بقول فیض "تاریک راہوں میں" جاں سے گزر گیا۔ نصیر مرزا نے لکھا، "جیسا کہ ہر جانے پہچانے شخص کے پیچھے بطور رہبر و رہنما کوئی نہ کوئی استاد ضرور ہوتا ہے، اسی طرح میرے لئے منزل کا نشان اور آئیڈیل شیخ عزیز صاحب تھے، جن کے نقش قدم آنکھوں میں رکھ کر میں نے کوئی نہ کوئی منزل پائی"۔ نصیر مرزا نے مزید لکھا، "بے شک جدید سندھی صحافت میں سراج الحق میمن صاحب (بطور ایڈیٹڑ "ہلال پاکستان") کا بڑا نام تھا لیکن خبر کے ڈسپلے، لے آؤٹ اور اس میں ادبی چاشنی بھر کر دکھانے میں شیخ عزیز صاحب جیسے ایڈیٹر اور سکھانے والے کو بھلادوں؟ 1978 سے 1980 تک پورے تین برس سندھ یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے کوہ نور چاڑی (گاڑی کھاتہ) کے قریب "سندھ نیوز" کے دفتر تک خود بخود مہکنے والے گلاب کے پھول کی طرح روشن شمع کی مانند شخص جس کے گرد ہم ۔۔۔ پتنگ اور پروانے" نصیر مرزا نے شیخ عزیز کو بہترین الفاظ اور انداز میں یاد کرکے مضمون نہیں بلکہ ان کی جدائی پر نوحہ قلمبند کیا ہے۔ کاش انہیں اہل صحافت ، ارباب اختیار اور سوداگران سیاست نے بھی نصیر مرزا کی نگاہوں سے دیکھا اور پرکھا ہوتا۔

( تحریر و تصویر میگزین, حيدرآباد جنوري 2019)