شخصيتون ۽ خاڪا

يادون ۽ ڳالھيون (شيخ عزيز بابت لکڻيون)

هي ڪتاب نامياري صحافي ۽ ليکڪ شيخ عزيز جي لاڏاڻي تي علمي، ادبي ۽ صحافتي خدمتن بابت لکڻين تي مشتمل آھي، جنھن جو سھيڙيندڙ طارق عزيز شيخ آھي. مھيش ڪمار لکي ٿو:
”شيخ عزيز سنڌي صحافت جي استاد صحافي طور مڃيو ويندو هو. هن جا تربيت ورتل ڪيترا ئي اخباري ڪارڪن پنهنجي وقت جا ڪامياب صحافي بڻيا. اليڪٽرانڪ ميڊيا ۾ نالي وارين شخصيتن ۾ سندس لائق شاگرد ڪامياب نظر آيا. سندس صحافتي ڪم فقط سنڌي اخبارن لاءِ يادگار ناهي، بلڪه اردو ۽ انگريزي اخبارن ۾ به سندس خدمتون هميشه ياد رکڻ جهڙيون آهن. هن سدائين سنڌ جي حق ۾ ڪيس کي اڳتي وڌايو. عوامي، سياسي، تاريخي توڙي ثقافتي حوالي سان پاڻ هزارين مضمون پڻ لکيائين. شيخ عزيز سنڌ جو سرمايو هو. هن جي لکڻين سان ايوانن کان وٺي مختلف کاتن ۾ هلچل مچي ويندي هئي. سنڌي صحافت جي ھن روشن ستاري کي سدائين سٺن لفظن ۾ ياد ڪيو ويندو.“
Title Cover of book يادون ۽ ڳالھيون (شيخ عزيز  بابت لکڻيون)

شیخ عزیز ہمہ گیر شخصیت کے حامل: رفیق شیخ

شیخ عزیز ہمہ گیر شخصیت کے حامل: رفیق شیخ

استاد محترم، اڑتیس سال پہلے کا منظر سندھ یونیورسٹی شعبہ صحافت اور آج کا منظرحیدرآباد پریس کلب کا بالائی ہال، اڑتیس سال پہلے استاد محترم شعبہ صحافت کے کلاس روم میں لیکچر دے رہے ہیں اور آج حیدرآباد پریس کلب کے ہال میں استاد محترم کی تصویر پھولوں کے درمیاں ہے اور ان سے محبت کرنے والے اور عقیدت رکھنے والے ان کی شخصیت پراظہار خیال کررہے ہیں۔ مہیش کمار نے یہ اڑتیس سال ایک فلم کی مانند بندآنکھوں سے دماغ کے پردے پر چلا دیے کچھ کثر باقی رہی تو آغارفیق اور نصیرمرزانےپوری کردی۔پیرمظہر،مجاہد بریلوی، قاضی خادم، ظہیر احمد نے کچھ اور مناظرسے پردہ اٹھایا۔ اس کے باوجود اس فلم کے کئی مناظر اوجھل رہے۔ واقعی استاد محترم شیخ عزیزکی شخصیت کے کئی پہلو ہنوزاوجھل ہیں جتنے بڑے وہ صحافی تھے استاد تھے سیاسی، سماجی اور ثقافتی دانشور تھے،موسیقار تھے، مصنف تھے اس قدر ہم انھیں خراج عقئدت پیش نہیں کر سکے۔
کثیرالجہتی شخصیت کے مالک شیخ عزیزتقریباّ اسّی برس کی عمر میں گزشتہ اکتوبر میں جہان فانی سے کوچ کر گئے نصف زندگی انھوں نے اپنے آبائی شہر حیدرآباد اور نصف زندگی کراچی میں گزاری۔ جنم لیا حیدرآباد میں اور دفن ہوئے کراچی میں۔ یہ اس بات کی علامت بھی ہے کہ شیخ عزیز نے دیہی سندھ سے علمی، صحافتی، ثقافتی اور تحریر سے رشتے کاجو سفرشروع کیا تھا وہ شہری سندھ تک کسی تعصب اور غرض کے بغیرانجام کو پہنچا اور ثبوت کے طور دہی سندھ کے وجود کوشہری سندھ کے حوالے کرگئے۔ حیدرآباد کی صحافتی برادری کہ کچھ دوستوں نے انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے حیدرآباد پریس کلب میں ،،شیخ عزیز تعزیتی ریفرنس،، رکھا حیدرآباد پریس کلب کے سابق صدر سینئر صحافی مہیش کمارنے اپنے دوستوں فاروق سومرو،امدادچانڈیواور دیگر کے ساتھ صحافی دوست گروپ کے پلیٹ فارم سے اس تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا،ریفرنس میں حیدرآباد سے جہاں ان کے دوست احباب شاگرد شریک ہوئےوہیں کراچی سے سینئر صحافی اور اینکر مجاہد بریلوی جن کا شیخ عزیز کے ساتھ برسوں کا تعلق رہا جی این مغل حیدرآباد اور کراچی میں شیخ صاحب ساتھی رہے، سابق صدر کراچی پریس کلب طاہرحسن خان جنھیں شیخ عزیز کے ساتھ ایک کمرے میں ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل رہا ہے اور میں،جو دو فیض حاصل کرنے والوں شامل رہا یعنی سندھ یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں شیخ عزیز سے باقاعدہ صحافت کی تعلیم حاصل کی اور کراچی میں عملی صحافت کے دورمیں ان سے راہنمائی لیتا رہا پیر مظہرالحق گزشتہ تیس سال سے پارلیمانی سیاست کا اہم کردار رہے کئی انتخابات جیتے صوبے کے وزیربنے انھوں نے بھی اپنی عملی زندگی صحافت سے شروع کی اور شیخ عزیز کے بستہ بند شاگرد بنے۔وہ بھی ناسازی طبع کے باوجود استاد محترم کو خراج عقیدت پیش کرنے پہنچے۔سینئر صحافی اور حیدرآباد پریس کلب کے سابق سیکریٹری ظہیر احمد، سینئر صحافی اور سابق سیکریٹری حفیظ عابد ،سینئرصحافی فاروق سومرو،صحافی اور انسانی حقوق کے سرگرم راہنما امداد چانڈیو نے بھی اپنے سینئر ساتھی اور استاد کو اپنی یادوں کے حوالے خراج عقیدت پیش کیا آغا رفیق جو سندھ یونیورسٹی ماس کمیونیکشن ڈیپارٹمنٹ کے چئرمین رہے اور نصیرمرزا جوریڈیوپاکستان کے ریجنل ڈائریکٹر رہے، میری طرح شیخ صاحب کے یونیورسٹی میں شاگرد تھے یہ ان شاگردوں میں تھے بقول آغا رفیق جنھیں شیخ صاحب کے اس کمرے تک رسائی حاصل تھی جہاں ان کے بچے بھی نہیں جاسکتے تھے یعنی چہیتے،لاڈلے ۔۔ان کا کہنا تھا کہ شیخ صاحب نے انھیں جو تعلیم دی جس طرح تربیت کی اس کے نتیجے میں ان سمیت شیخ صاحب کے کئی شاگرد جس بھی پروفیشن میں گئے اس کی ٹاپ پوزیشن تک پہنچے پروفیسر قاضی خادم حسین جوسندھ یونیورسٹی کے سندھی شعبہ کے استاد ہونے کے ساتھ صحافت سےبھی دہائیوں سے وابستہ رہے انھوں نے بھی اپنے ساتھی کو دل کی گہرائیوں سے خران تحسین پیش کیا۔تعزیتی ریفرنس میں شیخ عزیز کے صاحبزادگان طارق عزیز شیخ اور خرم شیخ بھی شریک تھے جنھوں نے اپنے والد کے ساتھ گزری یادوں کو حاضرین کے ساتھ شئرکیا،۔شیخ عزیز تاریخ،سیاست،صحافت اورموسیقی کی کئی کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ایک متحرک عملی صحافی بھی رہے َ۔انّیس سوپچاس کی دہائی کے آخر میں سندھی صحافت سے آغاز کیا روزنامہ عبرت اور سندہ نیوز حیدرآباد سے طویل عرصہ وابستہ رہے پھر روزنامہ جنگ کراچی بعد ازاں روزنامہ حرّیت کراچی سے وابستہ ہوکراردوصحافت میں نام کمایا ڈیلی ڈان کراچی سے بھی وابستگی آخری دم تک رہی یوں انگریزی صحافت میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا۔شیخ عزیز حیدرآباد پریس کلب کے سیکریٹری بھی رہے سندھی ادبی ہورڈ کے بھی وائس چئرمین رہے۔شیخ عزیز تمام عمر ایک متحرک صحافی کے طور پر کام کرتے رہے ۔حیدرآباد کے صحافیوں نے انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیےتعزیتی ریفرنس کے ساتھ ساتھ شیخ عزیز ایوارڈ کا اجرا بھی کیا یہ ایوارڈ ہر سال جونئر،سینئر صحفیوں کو دیے جائیں گے۔شیخ عزیز کو خراج عقیدت پیش کرنے لیے حیدرآباد پریس کلب اس ہال کو جہاں تعزیتی ریفرنس ہوا شیخ عزیز کے نام سے منسوب کردیا جائے۔

( روزنامہ سندھ حيدرآباد، 28 جنوری 2019ء)