شاہ لطیف کا فلسفہ ِغم: ڈاکٹر فہمیدہ حسین
اس ضمن میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اعلیٰ پائے کے صوفی اور بزرگ، پیر اور مرشد تو سندھ میں اور بھی کئی دفن ہیں اور فضل تعالیٰ زمانہ قدیم سے سندھ میں شعرا کی بھی کوئی کمی نہیں رہی ہے اور ایک سے ایک اعلیٰ شاعر موجود ہے۔ رهی بات فکر اور فلسفے کی تو تحریری رکارڈ کی غیر موجودگی میں کسی مفکر کی فکر یا فلسی کا فلسفہ ماضی سے حال اور حال سے مستقبل تک کا سفر یا تو زبانی روایات کے ذریعے طے کر سکتے ہیں یا ادب اور خصوصاَ شاعری کے ذریعے یہ سفر ممکن ہوسکتا ہے۔ دنیا میں تحریر کی غیر موجودگی میں کوئی بھی فلسفہ یا فکر زبانی روایتوں کے ذریعے اپنی اصلی روح کے ساتھ آنے والی نسلوں تک منتقل نہیں ہوسکا، اس کے لئے شاعری کی بیساکھیاں ضروری ہوتی ہیں۔
ویسے عام طور پر ہوتا یہ آیا ہے کہ کسی فلسفی کہ بطور فلسفی یا شاعر کا بطور فلسفی زندہ رہنا ناممکن ہوتا ہے جبکہ کسی شاعر کا بطور شاعر اور فلسفی کا بھی بطور شاعر زندہ رہنا ممکن ہے۔ یعنی فلسفی اگر شاعر بھی ہو تو اسے اپنے فلسفے کے لئے کسی کا محتاج ہونا نہیں پڑتا بلکہ وہ اپنے تخلیقی جوهر سے اپنا فلسفہ آئنده نسلوں کو منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، بشرطیکہ اس کا پیش کردہ فلسفیانہ دبستان ہی ختم نہ ہوجائے اور کوئی مخصوص فکری تحریک متروک نہ ہوجائے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی شاعری اپنے لوگوں کی فطری زبان میں ہو اور اس میں اعلیٰ فکر کو آگے بڑھانے کی صلاحیت ہو۔ اعلیٰ شاعرانہ فن اور اسلوب کی جمالیات، تخیل، جذبہ اور خوبصورت ڈکشن کی آمیزش سے ہی اعلیٰ فکر آگے بڑھائے جاسکتے ہیں۔ ایسی اعلیٰ فکری شاعری میں عصر سے ماورا ہو کر آنے والے زمانے تک سفر کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور وہ ماضی سے حال اور حال سے مستبقل قریب اور مستقبل بعید تک شاعر کو زندہ جاوید کردینے کے قابل ہوتی ہے۔ ایسی اعلیٰ شاعری کی تشکیل میں تخلیقی جوہر کے علاوہ اعصاب پر اثر انداز ہونے والے کئی اور عناصر بھی ہوتے ہیں، جن میں تصوف، عقل، فلسفہ اور نظریہِ حیات انفرادی یا امتزاجی حیثیت میں بہت فعال کردار ادا کرسکتے ہیں۔
معروف نقاد ڈاکٹر سلیم اختر کے مطابق ’میر درد کے یہاں تصوف، غالب کے یہاں عقل، اقبال کے یہاں فلسفہ اور فیض کے یہاں نظریہ ان کے مخصوص رنگ و سخن کی شناخت بن گئے‘۔ شاھ عبداللطیف بھٹائی سندھ کے وہ مفکر شاعر ہیں، وہ فلسفی فنکار ہیں، جنہوں نے اپنی فکر اور فلسفے کو اپنی اعلیٰ شاعری کے وسیلے سے اپنے عصر سے بہت آگے پہنچایا اور تین سو سال کا عرصہ گذرنے کے بعد بھی ان کی فکر اور فن کی جمالیات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ ان کے یہاں ہمیں تصوف، عقل، فلسفے اور نظریہ ِحیات کا حسین امتزاج ملتا ہے۔
ان کی شاعری پڑہئے، فلسفے کے لحاظ سے موت و حیات کا حوالہ یا زیست اور مظاہرِ زیست کے سلسلے میں ان کا نقطہ نظر واضح دکھائی دے گا۔ زندگی کے جدید تقاضوں پر مبنی مستقبل بینی کا احساس اور عملی شعور ان کے عقلی رویے کی نشاندھی کرتے ہیں، اور اپنے دور کے سیاسی، سماجی اور معاشی پس منظر میں زندگی بتانے کا ڈھنگ بھی اسی طور بتاتے ہیں۔ تقدیر کے ساتھ تدبیر، تسلیم و رضا کے ساتھ انکار اور مزاحمت، صبر و شکر کے ساتھ جدوجہد اور تگ و دو کے تصورات بظاہر متضاد محسوس ہوتے ہیں مگر در حقیقت یہ عوامل ان کے منفرد حقیقت پسندانہ رویے کی نشاندہی کرتے ہیں، جسے ہم مجموعی طور پر عقلی تقاضوں پر مبنی شعورِ زیست کا نام دے سکتے ہیں۔
شاه صاحب کے کلام میں موجود بہت سارے متضاد عناصر کی توضیح کی جاسکتی ہے۔ جہاں کامیابی کا امکان نظر نہ آئے تو مایوس ہونے کے بجائے تقدیر اور قسمت کے لکھے پر یقین دلاتے ہیں اور جہاں کوشش اور جدوجہد سے منزل ِمقصود پانے کا امکان دکھائی دیا ،تو جہد مسلسل کی درس دیا اور اس راہ میں موت کو خوشی سے قبول کرلینے کی بات کی۔ مصمم ارادہ اور پختہ عزم سے ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے پہاڑوں اور چٹانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ بھی دیا اور جہاں احساسِ ناکامی اور بے بسی شدت اختیار کرجانے کا خدشہ ہوا، تو صبر اور شکر کا سبق پڑہایا۔ اگر حق کی بات ہو تو جان بھی قربان کر دینے سے گریز نہ کرو اور ناحق کے لئے بڑے سے بڑی لالچ یا دھمکی کو بھی خاطر میں نہ لاو۔ دوست سے ان بن ہوجائے تو درگذر کردو، پلٹ کر جواب تک نہ دو اور دشمن سے لڑائی ہو تو تلوار اور بھالے کی بھی پرواہ مت کرو اور بِھڑ جاو۔
[b]“هو چَوَنئي تون مَ چئه واتان وَرائي”
[/b] (وہ کہے تم پلٹ کر کچھ نہ کہو) کا درس دوستوں کے لئے ديا.
[b]“هڻ ڀالا، وڙهه ڀاڪرين، آڏي ڍال مَ ڍار“
[/b] (بھالے مارو۔ گتھم گتھا ہوجاو۔ کسی ڈھال کو خاطر میں نہ لاو) یہ درس دشموں کے لئے ہے۔
جہاں تک شعرا کے جذبات و احساسات کا تعلق ہوتا ہے ،ہر شاعر کا محبت اور نفرت، خوشی اور غم یا وصل اور فراق کو برتنے کا اپنا اپنا انداز ہوتا ہے، جو اس کی شناخت بن جاتا ہے۔ غالب کا فلسفہِ عشق، اقبال کے فلسفه ِعشق سے یقیناَ مختلف ہے۔ اسی طرح میر تقی میر کا فلسفہِ غم غالب کے فلسفہِ غم سے جدا اور منفرد ہے۔
شاھ لطیف کے زندگی کے بارے میں عقلی رویہ اور سندھ کے لوگوں کی مخصوص نفسیات کی روشنی میں ان کا تصور ِغم، ان سب سے مختلف دکھائی دیتا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ شعورِ ذات اور اپنے دور کے درد سے آگہی ہے۔ وہ غم کو اپنا ساتھی اور درد کو اپنا دوست مان کر ہر دم ان کے طالب رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ آئیے اس پہلو کو دیکھیں۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ، “وادی سندھ کے لوگوں کی رگوں میں خون کے بجائے Pathos یعنی درد اور گداز دوڑتے ہیں۔ اور ان کے ہاتھوں کی لکیروں میں قسمت کے بجائے فن اور فکر کی تاریخ لکھی ہے”۔ میرے خیال میں ان دونوں باتوں کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے. فن اور فکر کی تاریخ بنا درد کے ممکن ہی نہیں! دنیا میں تخلیق ہونے والے ہر قسم کے فن یا کلا کے لئے فنکار یا کلاکار کے پاس ایک دردمند دل کا ہونا بے حد ضروری بلکہ لازمی ہے۔ اور اگر فنکار مفکر اور دانشور بھی ہو تو یہ درد دوگنا هوجاتا ہے۔ فنکار اور مفکر اپنے سماج کے نہ صرف باشعور افراد ہوتے ہیں بلکہ وہ روشن ضمیر اور حساس انسان بھی ہوتے ہیں۔ ان کا فن اور ان کی فکر ان کے اسی دردِ دل اور احساسِ غم کے عکاس ہوتے ہیں۔ جتنا زیادہ دل میں درد ہوگا اتنا ہی بڑا فنکار ہوگا یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جتنا بڑا فنکار ہوگا، اتنا ہی زیادہ دردمند دل رکھتا ہوگا۔ اس کے لئے درد کی لذت، گداز کی گرمی اور غم کی شدت سب کے سب اس کی راه روشن کرنے والے، اس کی منزل کی طرف رہنمائی کرنے والے عناصر ہوتے ہیں۔ شاه صاحب کہتے ہیں:
[b]ڏيکاريس ڏکن، گوندر گس پرينءَ جو،
سهائي سورن، ڪئي هيڪاندي هوت سين.[/b]
( دکھلائی دکھوں نے راھ پریتم کی، درد نے سُلجھائی منزل، حاصل ہوت ہوا۔)
پریتم، محبوب یا ہوت سسئی کا پنون بھی ہوسکتا ہے ،تو وطن، حُسن اور حق کی منزل بھی ہوسکتی ہے اور جو سچے فنکار ہوتے ہیں، دانشمند انسان ہوتے ہیں، انہیں اپنی منزل کی راه میں سہے جانے والے مصائب سے بھی محبت ہوجاتی ہے کیونکہ ان کی وجہ سے ان کا جذبہ ِجنون اور تیز ہوتا ہے۔ راهِ محبوب میں سہے جانے والے دکھوں کی اپنی لذت ہوتی ہے۔
فارسی کے شاعر فرید الدین عطار کہتے ہیں:
کفر کافررا، دین دیندار،
ذرہ دردِ دل عطار را۔
شاه عبداللطیف بھٹائی بھی ایسے ہی درد کی طلب کرتے ہیں:
[b]سور مَ ويڃيجاهه، سڄڻ جيئن سانگ ويا،
پرينءَ پڄاڻا، آءٌ اوهان سين اوريان.[/b]
سسئی کی زبانی شاعر نے کہا ہے: ’اے درد! تم بھی میرے محبوب کے ساتھ گئی رونقوں کی طرح مت چلے جانا، اس کے جانے کے بعد، صرف تم ہی تو ہو ،جس سے میں حال ِدل کہہ سکتا ہوں!‘
شاه صاحب دکھ سہے بنا۔ درد کی اذیت برادشت کئے بنا، حاصل ہونے والے سُکھ کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور سکھوں کا اصل حُسن ان دکھوں کو قرار دیتے ہیں، جو ان کے حصول کے لئے سہے گئے ہوں۔
ڏڏک سکن جي سونهن، گهوريا سک ڏکن ري.
در اصل وطن کے ساتھ، محبوب کے ساتھ یا حق کے ساتھ درد کا رشتہ هی اصل میں ان سے محبت کا ضامن ہے، ان سے عشق کی علامت ہے اور اس کے ذریعے منزلِ مقصود کا حصول ممکن ہوتا ہے اور کسی بھی قوم کے فنکاروں اور مفکروں کے فن اور فکر کو پر کھنے کے لئے یہ رشتہ ایک کسوٹی ہوتا ہے۔ شاه صاحب ایک درد آشنا شاعر بھی تھے اور دانشمندی کے درد اور آگہی کے عذاب سے بھي واقف تھے۔ اس لئے انہوں نے لیلا کی زبانی کہا تھا۔
[b]الا ڏاهي مَ ٿيان، ڏاهيون ڏک ڏسن.
[/b] ’اے کاش میں دانشمند نہ ہوتی، دانشمند بہت دکھ دیکھتے ہیں‘۔
یہاں دکھ سے فراز نہیں ہے اور نہ ہی دانشمند ہونے کا پچھتاوا ہے۔ یہاں تو ایک اعتراف ہے کہ دانشمندی دکھ کا سبب بنتی ہے۔ آگہی عذاب ہوتی ہے اور یہ کسی کا نصیب نہیں ہوتی، جو دکھ برداشت کرنے کی قوت اور سکت نہیں رکھتے، وہ اس کی طلب ہی نہ کریں۔
شاہ صاحب ایک ایسے ہی دانشمند شاعر تھے، ان کو وطن، ساجن اور سچ کے لئے دل میں تڑپ اور من میں محبت تھی اور ان کے دردمند دل نے اپنے ہم وطنوں کی معاشی غلامی، بی بسی اور کسمپرسی کو محسوس کرلیا تھا۔ وہ ان کی حالت تبدیل کرنا چاہتے تھے، اس کے لئے انہیں لوگوں میں اپنی حالت کا شعور پیدا کرنے کا بھی احساس تھا، ان کے دلوں میں اپنے وطن اور ہم وطنوں سے محبت پیدا کرنے کے لئے ویسا ہی درد پیدا کرنا ضروری تھا۔ تمام درد مندوں کو یکجا ہوکر استحصال کرنے والوں کے خلاف متحد ہونے کا درس دینا تھا۔ اس لئے نعرہ لگایا کہ:
[b]”اچو ته سورن واريون، ڪريون سور پچار“
[/b] ’آؤ اے دردمندو!، آکر اپنے درد بیان کرو اور آپس میں اپنے درد بانٹو‘۔
انہوں نے جان لیا تھا کہ جب تک تمام دکھی لوگ مل نہ بیٹھیں گے، ایک دوسرے کے درد کا احساس نہ کریں گے۔ کچھ بھی نہ ہوگا۔ اس لئے کہا کہ:
[b]ڏُکيون جان نه مِڙن، تان تان ڀنڻ نه ٿئي،
ٻيون هونئين هٿ هڻن، روئنديون رئڻ واريون.[/b]
’جب تک تمام دکھیارے یکجا نہ ہوں گے، تب تک کچھ نہیں ہوگا۔ اصل رونا تو وہی بیٹھ کر روئیں گے، جن کے دل کو لگی ہوگی، باقی تو بس یوں ہی تماشبیں ہوتے ہیں‘۔
یوں تو دنیا بھر کی شاعری میں دکھ، درد، سوزو گداز، غم و الم جیسے الفاظ عام پائے جاتے ہیں مگر سندھ کے شعرا کے یہاں ان کا تصور اور ان کو برتنے کا انداز بالکل ہی مختلف ہے۔ اسکی وجہ غالباَ یہ ہے کہ یہاں عام آدمی کو زندگی میں خوشی سے زیادہ غم سے واسطہ پڑتا ہے اور مفکر شعرا کو اس بات کا بخوبی اندازہ رہا ہے۔ وہ اپنی شاعری میں مختلف کرداروں کی زبانی اس بات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
شاه صاحب نے یوں اظہار کیا ہے:
[b]مُٺ مُٺ سڀ ڪهين، مون وٽ وٿاڻان،
ڀريون ڪريو ڀُڻان، ويا وهائو نڪري.[/b]
اس دنیا میں سب کو مٹھی بھر درد تو ملتا ہی ہے مگر مجھے تو درد سے بھری بوریاں ملی ہیں، جن کا شمار کرنے بیٹھوں تو راتیں بیت جائیں اور صبح کے کئی تارے گذر جائیں۔
یہاں کے لوگوں کو غموں کی اس قدر فراوانی نے بہت ہی دکھی اور دل برداشتہ کر دیا تھا ،اس لئے ضرورت اس بات کی تھی کہ ان میں موجود بے بسی، مجبوری اور مایوسی کے احساسات کو ختم کیا جائے اور ان کے اسی دکھ کو ان کی طاقت بنا کر، قوت بنا کر ان میں حالات سے مقابلے کا حوصلہ پیدا کیا جائے۔ انہیں شاه صاحب جیسے دانشمندوں نے بتانا چاہا تھا کہ اگر پتھر کو دکھ لگ جائے تو اس سخت جان کو بھی جونک کی طرح کھوکھلا کر سکتا ہے اور یہ کسی پہاڑ کو ریزہ ریزہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے، پوری دھرتی تپ کر لوہا بن جاتی ہے اور پھر انسان اپنے دل سے موت کا خوف نکال کر، جینے کی آس کو تیاگ کر، اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے میدان میں نکل پڑتا ہے۔ اس نکتے کو سامنے رکھتے ہوئے شاه صاحب نے اپنے لوگوں کو بتایا کہ:
[b]ڏک لڳو، ڏونگر ٻَريو، ڀينر کاڻي ڀون،
منان لاٿون مون، سندو جيئڻ آسرو.[/b]
سسئی کہتی ہے کہ: ’جب میرے جی کو دکھ لگ گیا، تو لگا پہاڑوں کو آگ لگ گئی ہے اور دھرتی تپ کر لوہا بن گئی ہے۔ تب میں نے اپنے من سے زندگی کی آس نکال کر موت کی راھ اپنالی‘۔
غم کے بارے میں شاه صاحب کا یہ ایک بہت ہی اهم فکری نکتہ ہے اور یہ اس دور کی سماجی نفسیات کی طرف اشارہ کرتا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ یہی آج کے سندھ کی سماجی نفسیات ہے۔ جب تمام قوم دکھی ہو، سب کے وجود گھائل ہوں اور سب ہی کا دکھ سانجھا ہو۔ عشق ایک ہو_ تب ہی کوئی سکھ کا سورج طلوع ہونے کی امید ہوسکتی ہے۔ کوئی منزل حاصل کی جاسکتی ہے۔ ورنہ تتر بتر لوگ، بھکرے ہوئے، بٹے ہوئے انسان اپنے وطن او ر ہم وطنوں کے لئے کیا کرسکتے ہے۔ غم کا یکساں احساس انسانوں میں اتحاد کا باعث ہوسکتا ہے۔ ہم غم سے زیادہ غمگسار اور کون ہوسکتا ہے؟
انفرادی طور پر بھی انسان کو سکھ کی زندگی سست اور کابل بنادیتی ہے اور وہ اپنا نصب العین بھول جاتا ہے اور اجتماعی طور پر قوموں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا آیا ہے۔ اس لئے شاه صاحب کہتے ہیں۔
[b]سئو سکن ڏيئي، ورهه وهايم هيڪڙو،
مون کي تنهن نيئي، پير ڏيکاريو پرينءَ جو.[/b]
میں نے سو کھ تیاگ کر ،ایک غمِ عشق اپنا لیا، جس نے مجھے میرے محبوب، میری منزل کی راه سجھائی۔
یا سسئی کی زبانی یوں بھی کہتے ہیں کہ:
[b]ڀنڀورَ جَن سُکن، مون کي ساٿان کاريو،
هاڻي ساڻ ڏکن، تان ڪي ڏونگر ڏوريان.[/b]
یعنی: بھنبھور میں سکھوں کے ساتھ نے میری عادت خراب کردی تھی، مگر اب دل کو جو درد لگ گیا ہے، اس نے مجھ میں چٹانوں سے ٹکرانے کی ہمت پیدا کردی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ سماجی طور پر مطمئن اور عیش و عشرت کی زندگی گذارنے والے آدمی میں کسی سماجی انقلاب یا کسی بھی طرح کی تبدیلی کی خواہش ناپید ہوتی ہے۔ سکھ انسان کو اپنے نصب العین سے نا آشنار رکھتے ہیں، اور بے حس بناکر دوسروں کے دکھ درد سے بھی لاتعلق بنا دیتے ہیں۔ اس لئے مفکر اور دانشور لوگ اگر شاعر بھی ہوں،تو اپنے لوگوں کی شاعری کے ذریعے ان باتوں کا شعور دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ شاه صاحب کے زمانے میں سندھ میں غیر یقینی کی سی حالت رہی، اپنوں اور غیروں کی سازشیں زوروں پر تھیں۔ مذھبی انتہا پسندی، ملائیت اور فرقہ واریت کو ہوا دی جا رہی تھی۔ سیاسی اور سماجی بدنظمی کی وجہ سے لوگوں میں مایوسی، بے بسی اور لاوارث ہونے کا شدید احساس موجود تھا۔ ایسے میں انہیں کسی دردمند کے دلاسے کی بھی ضرورت تھی ،تو کسی ہمدرد کا حوصلہ بھی درکار تھا، شاه صاحب کا اپنے لوگوں سے درد کا رشتہ تھا۔ یہی درد ان کی ذات اور ان کی تخلیق کا ایندھن تھا، طاقت تھا، جس سےمتاثر ہوکر انہوں نے لوگوں میں مقبول داستانوں کے کرداروں کی معرفت، ان کا حوصلہ باندھا اور ان کو دلاسا دیا اور احساس دلایا کہ دیس میں دردمندوں کی کمی ہوگئی ہے اور لوگ پریشان ہیں، حیران ہیں کہ کس سے رہنمائی لیں کس کو اپنا رهبر بنائیں؟
[b]ڏکيون ڏيهان جيڪس لڏي ويون،
هاڻي ڪن ملان، پُڇان پرينءَ خبرون؟[/b]
’یوں لگتا ہے کہ دردمند اس دیس سے لد گئے ہیں، اب ہم اپنے محبوب، اپنی منزلِ مقصود کا راستہ کس سے پوچھیں؟
پھر انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ اپنے جیسے چاک ِگریباں، غمِ دوراں کے مارے، ہم غم لوگوں کو تلاش کرو، جو غریبی اور مسکینی کی حالت میں بھی اپنے ضمیر کو فروخت نہیں کرتے اور اپنی ذات کو اور اپنے کردار کو بے داغ رکھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ ان کی نشانیاں یہ ہیں کہ:
[b]ڏکوين اهڃاڻ، ڪُلهي ڦاٽو ڪنجرو،
وڃن گوندر گڏيو، لوڪ نه آڇن پاڻ،
سورن اسان ساڻ، ننڍي ئي نينهن ڪيو.[/b]
ایسے لوگوں کی نشانی یہ ہے کہ ان کاگریباں چاک اور غم سے یارانہ ہوتا ہے۔ اپنی ذات اور ضمیر کو آزاد رکھتے ہیں، اس لئے وہ بچپن سے ہی غم سہنے کے عادی ہوتے ہیں۔
شاه عبداللطیف بھٹائی ایک ایسے مفکر اور فلاسافر شاعر ہیں، جنہوں نے غم کا ایک عالمی تصور دیا ہے، جس کے مطابق انہوں نے اپنی زندگی، فن اور فلسفے کے ذریعے، “حق” کی تلاش میں مسلسل جستجو اور جدوجہد کا پیغام دیا اور بتایا کہ مکمل حقیقت (Absolute Truth) کو جاننے کے لئے، اپنے وجود کی تکمیل کے لئے، اپنے نصب العین تک رسائی حاصل کرنے کے لئے اپنے غم کو روشنی بنا کر رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
[b]سرتيون سور پرينءَ جو سُڃن ۾ شامل،
ڪوهيارو ڪامل، مون کي ڏک ڏيکاريو.[/b]
سسئی کہتی ہے: ’اے میری سکھیو!، اس ویرانے میں میرے محبوب کا غم میرے ساتھ ہے، اسي غم نے مجھے میرا محبوب کامل دکھایا۔
یا پھر یوں ہوتا ہے کہ:
[b]سکن واري سُڌ، متان ڪا مون سين ڪري،
اندر جنين اڌ، ڏونگر سي ڏورينديون.[/b]
مکمل خوشی اور تکمیلِ وجود کی خواہش کرنے کے لئے ضروری ہے کہ، تمہارے دل گھائل ہوں اور تم درد سے آشنا ہو۔ تب ہی تو چٹانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ کرو گے اور دائمی سکھ حاصل کر سکو گے۔
تو یہ ہے شاه صاحب کا فلسفہِ غم، جس کو محسوس کرنے اور سمجھنے کے لئے قاری کے پاس بھی ایک دردمند دل کا ہونا ضروری ہے۔