شاہ لطیف کا فلسفئہ غم _ عشقیہ داستانوں کے تناظر میں: سید مظہر جمیل
وسعت، پھیلاو اور تنوع کے ساتھ ہی آفاقی شاعری کی ایک دوسری شناخت اس میں مر تکز ایک مخصوص انداز ِفکر، نکتئہ نظر اور اسلوب ِخیال بھی ہوتا ہے، جسے عرف عام میں ہم فوکل پوائنٹ (Focal Point) سے تعبیر کرتے ہیں، ریڑھ کی ہڈی کی طرح تمام وسعت، پھیلاو اور تکثیرت کو باہم و گر مجتمع رکھتا ہے اور بکھرے ہوئے متنوع واقعات اور ماجرائیت کو مخصوص معنی کے دھاگے میں باندھے رکھتا ہے۔
اس اعتبار سے دیکھیے تو شاہ عبداللطیف بھٹائی کی پوری شاعری میں وادی سندھ کے طول و عرض میں بکھرے ہوئے زندگی کے تمام روپ سروپ اور منظر نامے واقعاتی جزئیات نگاری اور صورت گری کے ساتھ متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ اور ہم لا محالہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ شاہ سائیں کا “رسالہ” محض عمومی شاعری کی کتاب ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا آئینہ خانہ ہے جس میں آس پاس اترتے سب موسم، سب رنگ، سب کیفیات کسی نہ کسی قصے، سرگزشت اور پیکر کی صورت میں منعکس ہو رے ہیں اور زندگی بے حساب وسعتوں، پھیلاو اور تنوع کے ساتھ شاہ صاحب کی وائیوں، بیتوں اور داستانوں میں جلوہ ساماں ہے۔
کہیں وادیءِ مہران کے خوب صورت کھیت ہیں، جن کے آس پاس غریب اور محنت کش دہقانوں، کسانوں کے جھونپڑے ہیں، ان کے ڈھور ڈنگر اور ہل بیل ہیں، ادلتے بدلتے موسموں کے متعلق کسانوں کے خدشات اور آرزوئیں ہیں اور کہیں اونچی نیچی لہروں پر ڈولتی کشتیاں ہیں، جن میں ماہی گیر، مہانے اور مچھیرے اپنے اپنے جالوں سمیت دریاوں، تالابوں اور جھیلوں سے اپنا رزق حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اور کہیں دور افتادہ پردیس کی طرف بادبان اٹھاتے ہوئے سوداگروں اور قسمت آزماوں کی رخصتی کے مناظر ہیں، وہیں کہیں برہا کی ماری کنیائیوں کی حزنیہ فریادیں ہیں، جو اپنے چاہنے والوں کی محفوظ واپسی کے شگون میں دریائی لہروں پر آرزوں کے ٹمٹماتے دیے روشن کر رہی ہیں۔ کہیں تپتے ہوئے ریگز ار اور چٹیل پہاڑی سلسلے ہیں ،جن کی اونچی نیچی گزر گاہوں میں سسی اپنے پنہوں کے نقشِ قدم ڈھونڈھتی پھرتی ہے۔ اُدھر عمر کوٹ کے پُر تعیش قلعے میں محصور اپنے وطن ملیر کی محبت اور اپنے لوگوں کی چاہ میں سلگتی ماروئی ہے ،جو ’عمر‘ کی قید و بند اور اسیری کی سختیاں برداشت کرتی ہے اور اپنے نفس کی پاکیزگی کو ثابت کر کے بالا آخر امر ہوجاتی ہے۔
کہیں رائے ڈیاچ کے محل دو محلے کے طلسماتی راگ کے شعلوں میں بھسم ہو رہے ہیں اور کہیں نوری جام تماچی کے رازو نیاز کے قصے اور مخالفوں کی حرص و ہوس کی فریب کاریاں۔غرض مومل رانو کی طلسمی داستان کے اسرار و رموزہوں کہ لیلی چنیسر کے قصے میں سرشتِ انسانی کی کیفیات کے منظر یا موکھی متاروں کی کہانی کی پُر ہول فضا۔ شاہ صاحب کا رسالہ زندگی کی وسعت، پھیلاو اور تنوع سے پُر ہے۔ اوریوں آفاقی شاعری کی پہلی کسوٹی پر پورا اترتا ہے۔
لیکن کیا اسے محض قصوں، کہانیوں اور حکایتوں کی کھتونی کہنے کی جسارت کی جاسکتی ہے؟ ظاہر ہے ہرگز نہیں، کیوں کہ وسعت اور پھیلاو کی اس متنوع دنیا میں معنوی وحدت کی فسوں کاری کا تاثر سب پر حاوی رہتا ہے، جو تکثیریت میں بھی ارتکازِ فکر کی ایکتائی پیدا کر رہی ہے۔ جس سے ان کے کلام کی معنویت، نغمگی، گہرائی، گیرائی اور ر مزیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ بنیادی تصور وہ وحدت الوجودی فکر ہے، جس کی تحت شاہ صاحب کل کائنات کو حقیقت ِاولیٰ کا پر تو اور آئینہ خانہ سمجھتے ہیں، جس میں ہر منظر اپنے پس منظر اور پیش منظر کے ساتھ جلوہ ہوتا ہے اور موجودات کا یہ مظہر، مظہرِ حقیقت بن جاتا ہے۔ اور چونکہ انسان کو کائنات میں اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے، وہ حقیقت اولیٰ کی تلاش بھی کرتا، اور اس تلاش کا بجائے خود مقصد اول بھی قرار پاتا ہے کہ وہ حقیقت اولیٰ کی صدا بھی ہے اور بازگشت ِصدا بھی کہ دونوں کی اصل حقیقی آواز کی یک جائی نشان وہی کرتی ہے۔
ہوگئے ایک مل کے ذات و صفات،
مٹ گیا فرق عاشق و معشوق.
**
ہم ہی کوتاہ بیں رہے ورنہ،
وہی خالق ہے اور وہی مخلوق.
**
کبھی وحدت کی تنہائی میں کثرت،
کبھی کثرت کے ہنگاموں میں وحدت.
**
مگر ان سارے ہنگاموں کی تہہ میں ،
بس ایک محبوب ہے اور اس کی صورت.
**
آپ ہی دوست، آپ ہی دشمن ،
آپ آغاز، آپ ہی انجام،
**
اصل میں اک حقیقت من و تو،
درمیاں لاکھ پردہ اوہام.
**
زندگی، موت، سانس، دل کی پھانس،
کون جانے، ہیں تیرے کتنے نام.
**
یہ صدا اور بازگشت ِصدا،
اصل دونوں کی ایک جیسی ہے.
**
اپنی آواز کی دوئی پہ نہ جا،
کہ سماعت فریب دیتی ہے۔
(سُر کلیان، پہلی داستان)
آفاقی شاعری کی ایک تیسری شناخت وہ حزنیہ کیفیات اور افسونِ غم ہے، جن سے شاہ صاحب روح کی بالیدگی اور معراج معنی حاصل کرتے ہیں کہ جذب و احساس، شوق و سرمستی کی اس منزل پر پہنچے بغیر زندگی کا کیف و نشاط کا سراغ پاناممکن ہی نہیں ہوتا۔ صوفیانہ تصورات میں غم و الم کی کیفیت دراصل رشتہ و سلوک کی منزل ہے، جو شدتِ احساس اور درد وابستگی کی انتہائی صورت میں جنم لیتی ہے۔ شاہ صاحب تو حیات و ممات تک کو ایک ہی سلسلہ ِوجود کے دو مختلف مراحل قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک شعور و لاشعور ایک دوسرے کے پرتو ے ہیں، جن کے درمیان عشق، طلب، لگن، جستجو، کشمکش، اضطراب، بے تابی، رست وخیز اور ایےار و قربانی جیسے تحرک پذیر عوامل ہی کار فرما رہتے ہیں۔ شاہ صاحب کی شاعری جہدِ مسلسل اور کشمکشِ حیات کی علم بردار ہے۔ ان کا تصوف تو ترک ِدنیا کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ چناچہ ان کے سب کردار اپنے اپنے دائرے میں سرگرمِ عمل رہتے ہیں۔ شاہ کی مومل، ماروئی، سسی، سوہنی اور لیلی سبھی عشق، لگن، جستجو اور حسب میں جہد ِمسلسل کی علامت ہیں۔ جنہیں ناآسودگی، پیاس، تڑپ اور ہجر کی حزنیہ کیفیت کا وش ِمدام میں سر گرداں رکھتی ہے۔ ہجر و فراق اور کشمکش کے یہی وہ مقامات ہیں جہاں شاہ صاحب معجزہ بیانی دکھاتے ہیں، جہاں حزنیہ فضا نمایاں طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔
سُر سسئی میں جب پنہوں کے بھائی پنہوں کو بھنبھور سے اغوا کر کے کیچ کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں اور سسئی بیدار ہوتے ہی، اس الم ناک صورت حال سے دوچار ہوتی ہے اور پنہوں کی تلاش میں ہيبتناک اور ان جانی گزر گاہوں پر حزن واضطرب کی کیفیت میں دیوانہ وار دوڑتی پھرتی ہے۔
عجب وندر کی راہ پُر ستم ہے،
عجب یہ رہگزار خم بہ خم ہے۔
**
کہاں گم ہیں وہ پُر اسرار ناقے،
صبا سے تیز تر جن کا قدم ہے۔
**
سرابوں میں ہراساں پھر رہی ہوں،
جگر میں آگ اور آنکھوں میں نم ہے۔
درد و غم اور حزن و رنج کی یہی کیفیت کم و بیش سب داستانوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اور اگر ہر داستان سے اس کیفیت کی نمائندہ ایک ایک مثال بھی پیش کی جائے، تو نہ صرف مضمون طویل ہوجائے گا بلکہ تکرارِ معنی کی صورت بھی پیدا ہوجائے گی۔ چنانچہ اس صورت حال سے گریز کرتے ہوئے ہم صرف “مارئی” ہی سے چند مثالوں پر اکتفا کرنا چاہیں گئے۔ آپ جانتے ہیں کہ شاہ صاحب اپنے کلام میں کوئی بھی داستان نہ تو آغاز سے انجام تک سناتے ہیں اور نہ ان میں قصہ گوئی کے عمومی لوازمات کی پرواہ کرتے ہیں بلکہ ہر داستان کے صرف اس حصے پر توجہ کرتے ہیں جس میں رموزو معنی کو زیادہ بہتر اور موزوں انداز سے پیش کیا جاسکتا ہو۔ چنانچہ مارئی کی داستان بھی ملیر کے حاکم “عمر” کے ہاتھوں اغوا اور قید و بند کے بیان سے آغاز ہوتی ہے، جہاں مارئی اپنے وطن کی محبت اور ماروں کی جدائی میں ٹڑپ رہی ہے۔
میرے درد اتنا مارو ہیں تھر میں
مگر میں قید ہوں اس بام و در میں
نہ تھا معلوم اے امرِ مثيت
کہ اک ایسی بھی منزل ہے سفر میں۔
**
کسے انکار تسلیم و رضا ہے،
وہی ہوگا جو قسمت میں لکھا ہے۔
**
رہائی کا نہیں امکان کوئی،
کسے معلوم کب تک یہ سزا ہے۔
**
مٹا سکتا نہیں کوئی اسے جو،
اسیروں کے مقدر میں لکھا ہے۔
**
عمر سے تھر کے چرواہے ہیں عاری،
خدا جانے کب سے رستگاری۔
(پہلی داستان)
**
اے عمر اب مجھے اجازت دے ،
اپنے پیاروں کے پاس جاوں میں۔
**
پھر نظر آئیں ان کے پشمینے،
لاکھ کا رنگ پھر چڑھاؤں.
ساتھ ساتھ ان کے تھر کی وادی میں،
بھیڑ اور بکریاں چراؤں میں.
اوڑھ کر سر پر پھر حیا کی شال،
مارووں کو گلے لگاوں میں ،
چھوڑ دے مجھ کو سومرا سردار،
پھر انہیں جھونپیڑوں میں جاوں میں۔
(دوسری داستان)
او رپھر وطن کی محبت اور وہاں بدلتے موسموں کے خیال اور گزرتے دن رات کے تسلسل میں ایک مسلسل ہجر، طلب اور تڑپ کی کیفیت ہے ، جو آخر تک بیان ہوتی چلی گئی ہے۔ وہاں کی برسات کی کیفیت کا تصور ہو کہ مارووں کے کھیت کھلیا نوں کی فکر، اپنی سہیلیوں کی جدائی کا دکھ او رماں باپ کے نام و ناموس کے ابتری کا احساس، یہ سب درد بھرے، ملول اور حزنیہ کیفیت ہی کے حامل اشعار ہیں لیکن ان میں کہیں بھی شکست خوردگی کا احساس نهيں ہے اور نہ ظلم کے آگے سرنگوں ہونے کا خیال بلکہ ماروئی ہی کا جذبہ صادق ہے کہ ہر امتحان سے سروخرو نکلتا ہے۔ یہاں تک کہ ظالم خود اپنے ظلم سے نادم و ہراساں اور ترکِ ظلم سے مجبور ہوجاتا ہے۔ داستان کےاختتامیہ اشعار جس کامرانی کا اظہار کرتے ہیں، دراصل یہی شاہ صاحب کے فلسفئہ غم کا حاصل بھی ہے۔
ختم کر اشک و آہ کو پیاری،
بس یہ بدبختیاں ہیں ٹلنے کو.
یہ سلا سل ، یہ طوق ہیں اب تو،
اپنی ہی آگ میں پگھلنے کو.
اور کچھ دن یونہی نہ ہمت ہار،
تو ہے اس قید سے نکلنے کو۔
وصل ہی آرزو نہ جانے کیوں،
رنگِ سوز فراق کا لائی.
اب نہ وہ تھر ہے اور نہ وہ مارو،
بیٹھکیں ہیں نہ ان کی زیبائی.
دل میں اب درد کا بسیرا ہے،
میں هوں اور یہ نحیف تنہائی۔