شاہ لطیف کی شاعری میں فلسفہ ِ غم: پروفیسر محمد سلیم میمن
شاہ صاحب کی شاعری کے موضوع اور پہلو کثیر الجہتی ہیں. وہ عوامی شاعر بھی ہیں تو انقلابی بھی ہیں، صوفی بھی ہیں، تو وطن پرست بھی۔، نہ صرف یہ، بلکہ ہر سوچ، فکر، نظریہ اور مکتبہ فکر کے افراد کو ان کی شاعری میں گویا اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری ہر ایک کے من کو بھاتی ہے۔ کچھ اس میں صرف تصوف کے رنگ کو ڈھونڈتے ہیں اور انہیں صوفی شاعر مانتے ہیں چند ترقی پسند انہیں انقلابی شاعر کی نظر سے نہ صرف دیکھتے ہیں بلکہ انہیں انقلابی شاعر مانتے بھی ہیں، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ان کی شاعری میں عوام الناس کی بات کی گئی ہے۔
شاہ صاحب کی شاعری میں تمثیل بڑی معنویت رکھتی ہے۔ بچپن سے اسکولوں میں شاہ صاحب کی شاعری کے مطالعے میں اساتذہ کرام نے یہ بتایا اور سمجھایا کہ شاه صاحب کي شاعری کے دو معنیٰ ہوتے ہیں، ایک ظاہری اور دوسری باطنی! یہ ظاہر اور باطن کا تصور بچپن ہی سے شاہ صاحب کی شاعری کے خدوخال نمایاں کرتا آتا ہے، لیکن کبھی کبھی یہ تصور عجیب و غریب بھی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن جب آپ اس عجب تصور کے روشنی میں شاہ صاحب کي شاعري کا گهرائي سي مطالعه کريں گے تو آپ کو نظر آئے گا که تمثيل ميں شاه صاحب نے سندھ کی تاریخی و لوک داستانوں کو اپنی شاعری میں سمودیا ہے۔ ان نیم تاریخی داستانوں میں زیادہ تر عشقیہ داستانیں جو کہ سندھ کے خواندہ اور ناخواندہ دونوں قسم کے افراد میں یکساں مقبول ہیں۔ انہی داستانوں میں شاہ صاحب نے زیادہ تر رنج اور رنج والم کا اظہار کیا ہے۔
دنیا کی دیگر زبانوں کی شاعری میں دکھ، درد، سوزو گداز، غم والم کے الفاظ عام ملتے ہیں، اور شعرا ان کیفیات سے دوچار بھی ہوتے ہیں، اور اپنی شاعری میں ڈوب کر اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے که المیہ شاعری، طربیہ شاعری کے مقابلے میں زیادہ مقبول بھی ہے اور سنی بھی جاتی ہے۔ليکن سندھ کے شعرا کے پاس ان کیفیات کا تصور اور برتاو بلکل مختلف ہے، اور اس کے کئی اسباب ہیں، ایک وجہ یہ بھی کہی جاتی ہے کہ یہاں کے باسی درد مندل دل رکھتے ہیں، اس لئے ان کا سابقہ خوشی سے زیادہ غم سے پڑتا ہے۔ اور سندھ کے شعرا کو اس کا احساس بھی ہے، جس کا اظہار وہ عموماَ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، شاہ صاحب بھی فرماتے ہیں:
دکھ سکھوں کی راعنائی، واروں سُکھ دُکھوں پے،
جن کے ہی کارن، آن ملا محبوب مجھے۔
(سُر حسینی، داستان 6)
شاہ صاحب کے نزدیک دکھ، درد اور غم و اند وہ سے انسان کا کیتھارس ہوتا ہے۔ یعنیٰ دکھ درد برداشت کرنے سے انسان کا باطن دہل کر اُجلا اور شفاف ہوجاتا ہے جسے وہ نجس کا نکھرنا کہتے ہیں۔ سُر سسئی اس نظریہِ غم و الم میں ڈوبا ہوا سُر ہے۔ اس کو شاہ صاحب نے پانچ کلاسیکی اور مقامی راگوں میں منظوم کیا ہے اور ان پانچ راگوں میں آپ نے سسی کو آگ اُگلتے سورج کی دھوپ میں جلتے، بھوک و پیاس اور تھکن سے نڈھال دشت وبیاباں کے میدانوں میں بھٹکتے ہوئے دکھایا ہے۔ شاہ صاحب جانتے تھے کہ اس داستان کے خالق عوام ہیں، اس لئے انہوں نے کسی بھی لوک داستان کو اس کی جزیات کے ساتھ بیاں کرنے کے بجائے اس کے کرداروں اور چند واقعات کا انتخاب کیا ہے، اور اس کی تشریح و حدت الوجود کے نظریہ کے مطابق کرتے ہوئے، ان کو نئے معنیٰ دیئے ہیں۔ شاہ صاحب نے اس داستان کی ہیروئن سسئی کو مشکل ترین حالات میں بھی مردانہ وار مقابلہ کرنے اور اپنے مقصد سے نہ ہٹنے کے عزم کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔ وہ انسان کو سعئی پیہم، اٹل ارادے اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی ڈٹے رہنے کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں. یہی نہیں بلکہ ان کے کردار بھی اپنے مضبوط ارادے سے اپنی منزل کو پانے کیلئے ہر قربانی دینے کیلئے تیار نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک مثال سسئی ہے جو بڑے نازوں سے پلی تھی۔ اپنے محبوب کی تلاش میں تپتے صحرا میں بھٹکتی رہی ہے۔
جس کے پیر تھے ریشم جیسے، پربت میں وہ پیادہ
قابلِ دید تھی آبلہ پائی، زخم ہوئے تھے تازہ،
پھر بھی پربت روند رہی تھی، ہجر میں من تھا ماندہ،
جس سے بندھن باندھا، کاش میں اس سے مل جاوں،
ان دیکھے اشجار ہیں ہر سُو، صحرا، پربت، پیاس،
دل دہلاتے دشت و جبل اور، من میں خوف و ہراس،
سر پر آگ اُگلتا سورج، جھلس رہا ہے ماس،
ساجن آجا پاس، میں تنہا ویرانوں میں۔
(ترجمہ : آغا سلیم)
**
جنگل، پربت، دور سفر، اور یہ ریت کے ٹیلے،
آڑے ترچھے پتھر ہیں، میں کروں یہاں کیا حیلے،
جس نے دکھڑے جھیلے، اس کو “کیچ” تو پہنچا سائیں!
(ترجمہ : آغا سلیم)
مندرجہ بالا اشعار سے آپ اس درد، تکلیف اور تنہا دشت کے سفر کی صعوبتیں برادشت کرنے والی سسئی کی حالت زار کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو کہ اس معصوم کردار کے ارادوں کو کمزور کرنے کے بجائے، اس کا محبوب کو پانے کا عزم اور زیادہ کرتے ہیں، گو کہ وہ ایک نازک اندام عورت ہے، لیکن کمزور نہیں ہے، اس کا عزم اور ارادہ پہاڑوں سے بھی زیادہ بلند اور مضبوط ہے۔ وہ ان پہاڑوں کو بھی للکارتے ہوئے نظر آتی ہے، اور بے اختیار کہتی ہے:
دکھیاروں کا کیا کر لے گا، اے پربت! تو تپ کر،
میرے انگ ہیں فولادی گر، سخت ہیں تیرے پتھر،
یہ ہے میرا مقدر، اور کسی کا دوش نہیں ہے.
**
عشق میں آڑے آنے والے، کیا ہیں یہ کہسار،
عشق یار میں اورانگوں میں، پربت لاکھ ہزار ،
گھبرائیں شہزور جہاں پر، وہاں پہ پہنچی نار،
عشق کے آگے آساں ہیں سب، دشت، جبل دشوار.
(ترجمہ: آغا سلیم)
در اصل شاہ صاحب درد، تکلیف، رنج، الم اور اذیتوں کو برداشت کئے بغیر حاصل ہونے والے سکھ کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ سکھوں کی اصل خوبصورتی اور سندرتا اذیتوں اور دکھوں ہی کو سمجھتے ہیں، جو سکھوں کو حاصل کرنے کے لئے جھیلے گئے ہوں۔ وہ کہتے ہیں:
مٹھی بھر درد سبھی کو، میرے پاس بھنڈار،
لے کر ساتھ پھروں، چلے گئے چارہ گر۔
(سُر حسینی، داستان 6)
شاہ صاحب کا یہ فلسفئہ غم ہمیں ہر سُر میں نظر آتا ہے. کہیں نوری، تماچی کے فراق میں، تو کہیں مومل رانو کے فراق میں، کہیں سور ٹھ را ڈیاچ کیلئے تڑپتی نظر آتی ہے، اور یہ المیہ کیا کم ہے، کہ سندھ کی عشقیہ داستانوں میں زیادہ تر عورت ہی عاشق ہوتی ہے۔ اور وہ ہی اپنے محبوب کو پانے کیلئے جتن کرتی ہوئی نظر آتی ہے. سوہنی دریا پار کر کے مہیار سے ملنے جاتی ہے، اگرچہ یہی کام میہار کو کرنا چاہیے تھا۔ لیکن اُس کے برعکس ایک نازک عورت گھڑے پر تیر کر محبوب سے ملنے جاتی ہے۔ اور اگر آج کے دور میں سوہنی کے یہی لچھن ہوتے تو یقیناَ “کاری” کر کے مار دی جاتی۔ صوفی شعرا اور خاص طور پر شاہ عبداللطیف بھٹائی نے عورت کے مرد سے اس والہانہ عشق کو طالبِِ حقیقی کی طلب اور تلاش کا استعارہ بنایا ہے۔