شاہ لطیف کے کلام کی عشقیہ داستانوں میں فلسفہ ِغم: پروفیسر ڈاکٹر سحر امداد شاہ
[b]جن کي دور درد جو، سبق سور پڙهن،
فڪر ڦرهي هٿ ڪري، ماٺ مطالع ڪن،
پنو سو پڙهن، جنهن ۾ پسن پرينءَ ڪي![/b]
اپنے ایک گناہ کی پاداش میں انسان کو اس دنیا میں بھیجا گیا۔ اسی ایک غلطی کا کفارہ ادا کرنے کیلئے، اس دنیا میں انسان آزمائشوں کو بحربیکراں سے گذرتا ہے۔ اور اس دنیا میں اپنے بے حساب کردہ اور ناکردہ گناہوں کا کفارہ ادا کرتے ہوئے وہ غم سے بھری راتوں اور درد بھرے دنوں سے گذرتا ہے اور غموں سے دھل کر ہی ایک انسان شفافیت کی ان منزلوں کو چُھوتا ہے اور نجات پاتا ہے۔
ہم غم کے فلسفے کے بارے میں صرف گوتم بدھ کےالفاظ ہی اگر دہرائیں کہ: ’سروم دُکھم دُکھم‘ ( سب دُکھ ہی دُکھ ہے) تو ہم پر یہ آشکار ہوگا کہ زندگی واقعی دکھوں سے عبارت ہے۔ کہ اس دنیا میں خوشی کے لمحات عارضی ہیں اور دُکھ ایک دائمی قدر ہے۔ پر گوتم بدھ نے دکھوں سے نجات کا راستہ بھی بتلایا۔ بعینہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری میں بھی زندگی اپنے دکھوں سمیت پھیلی ہوئی ملے گی۔ خواہ وہ عاشق کا سولی چڑہنے کا غم ہو یا پروانے کا شمع پر جل جانے کا غم ہو۔ سسئی کا پنہوں سے بچھڑنے کا غم ہو، کہ مومل کارانو سے روٹھنے کا غم ہو، لیلا کا نو لکھے هار پر چنیسر کو کھونے کا غم ہو، کہ سورٹھ کا رائے ڈیاچ کا سخاوت میں سر لٹا نے کا غم ہو، سہنی کا اپنے مہینوال کیلئے دریا میں ڈوب مرنے کا غم ہو، کہ مارئی کا اپنے ملیر وطن سے بچھڑنے کا غم ہو، کاپائتی میں بازاروں کے اجڑنے اور دریا کے سوکھنے کا غم ہو، کہ سامونڈی کے سمندر کے اس پار جانے کا غم ہو، یہ سارے غم ،دکھ، اند وہ انسان کے من کو صیقل ہی تو کرتے ہیں۔
قدیم یونان میں ’فلسفہِ غم‘ کے حوالے سے ہمیں بوطيقه (Poetica ) میں ارسطو کے ارشادات ملیں گے۔ کہ ارسطو کے ہاں ٹریجیڈی ہی اعلیٰ ادب ہے۔ چونکہ ٹریجیڈی سے ہی انسان میں غم، دکھ اور حزن کي کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اور اسی کے باعث انسان Catharsis کے عمل سے گذرتا ہے۔ کتھار سس کے عمل سے گزر کر ہی انسان شفافیت کی اس منزل کو پاتا ہے، جو دکھ سُکھ سے ملتی (یعنی نجات) کی منزل ہے۔
آج اکیسویں صدی کے داهني پر بھی ہماری نگاہیں شاہ لطیف اور ان کی اعلیٰ و ارفع پیغام پر ٹکی ہیں۔ کیونکہ شاہ لطیف کی شاعری وقت کے دریا کو پاٹنے والا وہ پل ہے ،جو قدیم و جدید دنیائوں کو ایک دوسرے سے ملاتا ہے۔ اور ہم سب یہ جانتے ہیں کہ اعلیٰ و ارفع درجے کی تمام شاعری لامتنا ہی اور ابدی ہوتی ہے۔
شاہ کی شاعری میں ہمیں نیکی، محبت، حب الوطني اور دوستی کی گرم جوشیاں بھی ملیں گی ،تو انتظار، دُکھ اور آہوں اور دانہوں کا ایک جہاں بھی ملے گا۔ شاہ کی شاعری فی الحقیقت ایک ملکوتی و جبروتی چیز ہے ،جو علم کا مرکز بھی ہے تو محور بھی۔ ہم سب پر یہ تو آشکار ہے کہ، وہ لذت جو غم سے حاصل ہوتی ہے، مسرت کی لذت سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی لئے شاہ لطیف ’سُور‘ (درد) کو اپنا ساتھی بناتے ہیں اور کہتے ہیں:
[b]سُور مَ وڃيجاه، سڄڻ جيئن سانگ ويا،
پرين پڄاڻان، آءٌ اوهان سان اوريان.[/b]
(دکھ نہ چھوڑو مجھ کو ایسے، ساجن چھوڑ گئے ہیں جیسے، دکھ سنگ دُکھ میں بانٹوں ایسے، بچھڑے ساجن جیسے!)
شاہ لطیف کی سسئی دکھوں کو جانے سے روکتی ہے ،کہ ساجن تو چلے گئے مگر تم تو نہ جاو اے دُکھ! شاہ لطیف کی سسئی سؤ سُکھ دے کر بھی ایک دُکھ پانے کی خواہشمند ہے۔ کیونکہ دکھ ہی محبوب تک پہنچنے کیلئے اس کی رہنمائی کریں گے۔ لطیف سائیں کہتے ہیں:
[b]سوَ سکن ڏيئي، ورهيه وهايم هيڪڙو،
مون کي تنهن نيئي، پير ڏيکاريو پرينءَ جو.[/b]
اس کا انگریزی میں ترجمہ کچھ یوں ہے کہ:
I gave up countless comforts,
For acquiring a single pain of love,
That guided me through to my destiny!
’سور‘، ’سریر‘ کو صحت عطا کرتا ہے اور صوفیا کے ہاں یہی نسخہ سب سے زیادہ کار گر نسخہ ہے۔
[b]سُور جنين کي سرير، سري تن صحت،
مِٺي مصبيت، آهي عاشقن کي.[/b]
عشاق کیلئے مصیبت میٹھی ہے اور دکھ ہی صحت کا باعث ہیں۔
شاہ لطیف کے شاندار ڈکشن میں ’غم‘ کیلئے بی انداز الفاظ ہیں۔ اور پھر اشاروں، کنایوں، تلمیحات، استعارات اور تشبیہات و علامات کا ایک سمندر ہے۔ وہ اپنے تصورات، تفکرات و کیفیات کو بار بار ایک ہی قسم کے الفاظ میں نہیں دہراتے کہ دہراوؤ نہ صرف بیان کی محدودگی پر فکر کی محدودگی کا بھی باعث بنتا ہے۔ جب کہ شاہ کی شاعری ایسی کسی بھی محدودگی کا شکار نہیں۔ میں نے شاہ کا جو بیت ابتدا میں پيش کيا تھا۔ میں اس بیت کو دوبارہ پيش کرنا چاہوں گی)۔
[b]جن کي دور در جو، سبق سُور پڙهن،
فڪر ڦرهي هٿ ڪري، ماٺ مطالع ڪن،
پنو سو پڙهن، جنهن ۾ پسن پرينءَ کي.[/b]
یعنی درد کو دہراتے رہنا اور دکھ ’سور‘ کا سبق پڑھنا ہی ان عشاق کا وطیرہ ہے۔ وہ ہر وقت تفکر میں مصروف کا رہتے ہیں اور چُپ کا روزہ رکھتے ہیں۔ شاہ نے جو’ماٺ مطالعو ڪن‘ کہا هے وه بہت ہی خوبصورت اور بامعنیٰ فقرہ ہے۔ Illustration کی خوبیوں سے بھرپور۔ عاشق صرف وہی پنے پڑھتے ہیں، جہاں انہیں اپنے پریتم کا پر توو دکھائی پڑتا ہے۔
صوفیا، علما، فُکر ا اور اولیا کی نظر میں دکھ کے تین اساس ہیں: محروی، مایوسی اور ناکامی اور اس کے نتیجے میں جو دکھ انسان کو ملتے ہیں ان کا مد اوا مشکل نہیں، آسان ہے۔ اور انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اور ویسے بھی ہمیں ہمارا مذہب سکھاتا ہے کہ مایوسی کفر ہے۔ محرومین کیلئے ’صبر‘ کی تقلین کی گئی ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی اپنے اس بیت میں کس خوبصورتی سے ’صبر‘ کی تلقین فرماتے ہیں کہ اشارہ ہی کافی ہے:
[b]پر ۾ پڇيائون، عشق جي اسباب کي،
دارون هن درد جو، ڏاڍو ڏسيائون،
آخر ”والعصر“ جو، ائين اتائون،
تِهان پوءِ آئون، سِڪان ٿي سلام کي.[/b]
شاہ لطیف بھٹائی جیسی اعلیٰ صفاتی اور آفاقی شعرا کی روح میں نیکی، حکمت اور عدل رچا بَسا ہوتا ہے۔ وہ اپنے شعار کے ذریعی اعلیٰ و ارفع اقدار، ہمہگیر سوچ اور حکیمانہ خیالات کو سادہ ر وح عوام تک پہنچاتے ہیں۔ اور انہی کی زبان میں مخاطب ہوتے ہیں۔ ان کی ویسی زبان میں وراس ویسی زبان کی اعلیٰ و ارفع خیالات و تفکرات و تصورات خدمات سے مرصح کرتے ہیں۔ اور اسے اعلیٰ ترین ادب کی زبان بنادیتے ہیں۔
شاہ کے تمشال کا کمال ان کے اشعار میں جابجا ملتا ہے۔ ان کے کرداروں کی مرصح کاری یگانه حیثیت رکھتی ہے۔ شاه کی سسئی پنہون کو کھونے کے بعد بھنبھور میں بیٹھی آنسو نہیں بہاتی ہے ، بلکہ وہ ’ڏيان باهه ڀنڀور کي‘ کہہ کر بھنبھور کو تیاگتی ہے اور پنہوں کی تلاش میں کیچ مکران کا سفر کرتی ہے اور مشکل پہاڑوں اور بیابانوں اور چوٹیوں کو پار کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے۔ اور اس بہت ہی کٹھن سفر کے دوران نہ اس سے آنسو تھمتے ہیں اور نہ پاؤں:
[b]وَسي وِساڻيون، روئي رت پري کي،
پيبيون کڻن پٻ ڏي، نظر نماڻيون،
سي ڪئن ٻيلياڻيون، جن ويندو هوت نه واريو.[/b]
برستی آنکھیں بُجھ گئیں؛ کیونکہ پنہوں کی یاد میں خون کے آنسو روئے تھے۔
پب کے پہاڑوں پر چلتے ہوئے اس کی آنکھیں انہیں مسلسل ڈھونڈھتی رہتی ہیں۔ میں انہیں اپنا ساتھی کیسے کہوں، جو میرے جاتے ہوئے ہوت پنہوں کو واپس نہ لاسکیں۔ سسئی کی زبانی شاہ سائین ایک اور بیت میں فرماتے ہیں:
[b]رئڻ ۾ راڙو، مون نماڻيءَ جي نجهري،
ڪُٺل کي قلب ۾، قرب جو ڪاڙهو،
هوتن لاءِ هاڙهو، رجائينديس رت سين![/b]
میرے نصیب میں تو اب رونا پیٹنا ہی لکھا ہے، مجھ ذبیحہ کے قلب میں قرب کی آگ بھڑک رہی ہے۔ اور میں اپنی ہوتے پنہوں کیلئے “ہاڑھا” کے جبل کو اپنے خون سے سُرخ کردوں گی۔ شاہ لطیف سسئی کی تمثال کے ذریعے ہم تک یہ پیغام پہنچاتے ہیں کہ موت برحق ہے۔ آپ اپنے گھر کے آرامدہ کمرے میں موت سے همکنارہوں یا سسئی کی طرح مسلسل جدوجہد اورجستجو کرتے ہوئے، مگر شاہ سائین سسئی ہی کے حوالے سے اپنے بیت کی دو سطروں میں کل 13 الفاظ میں کس قدر بڑی بات کہہ جاتے ہیں۔ ان کا سورٹھا ہے کہ:
[b]اڳي پوءِ مَران، مَر مَران مارڳ ۾.
[/b] آج یا کل مرنا تو ہے، تو کیوں نہ منزل کی جانب سفر میں مروں!
ان کا ایک بہت ہی خوبصورت سورٹھا ہے:
[b]ڏيکاريس ڏکن، گُوندر گَسُ پرين جو،
سُنهائي سُورن، ڪي هيڪاندي هوت سين.[/b]
اس سورٹھے میں شاہ لطیف نے غم کے حوالے سے ’گوندر، سور اور دکھ‘ تینوں الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ ان کے الفاظ کے صوتیاتی رنگ و آہنگ میں تجنیس حرفی کا کمال تو دیکھئے، کہ جب وہ لفظ ’دکھ‘ استعمال کرتے ہیں ،تو کہتے ہیں! گُوندر گس (یعنی غم کی راہ) جب وہ لفظ ’سور‘ استعمال کرتے ہیں تو کہیتے ہیں: ’سنهائی سورن‘ (یعنی دکھوں نے دکھایا) وہ الفاظ کو نگینوں کی طرح جڑتے ہیں۔ ان کے جڑاؤ کے کمال کاکوئی کامل صراف ہی مقابلا کر سکتا ہے۔ سو ایک گہری اور مکمل بات کرنے کا سلیقہ تو کوئی لطیف سائیں ہی سے سیکھئے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری میں چھائے ہوئے اس درد کی کئی وجوہات ہیں۔ شاہ لطیف کے دور میں جاگیرداری دور کی ریشہ دوانیاں اپنے عروج پر تھیں۔ نادر شاہی لوٹ کھسوٹ اور ظلم و جبر کے وہ آنکھوں دیکھے شاہد تھے۔گو کہ مغلوں کی بادشاہت کا سورج ڈوب رہا تھا۔ مگر پھر بھی اقتداری قوت کے ضعم میں مغل مرزائون نے شاہ اور ان کے خاندان کے ساتھ اس قدر زیادتیاں کیں کہ بالاآخر شاہ لطیف تین سال سال تک جوگیوں اور سنیاسیوں کے ساتھ سفر پر نکل پڑے۔ تین سالوں کے اس طویل سفر ، جو جھونا گڑھ اور جیسلمیر سے لے کر ھنگلاج کے دشوار گذار پہاڑی یاتراؤں کا سفر ہے۔ سفر محض سفر نہیں تھا۔ ان کی عبادتوں، ریاضتوں، مجاہدوں اور پتسیاوں کا ایک لامتناہی سلسلہ تھا۔ اسی سفر نے انہیں تجربات کے ایسے نادر خزانے سے نوازا، جو ان کی زندگی کا ثمر ثابت ہوا۔ اور اسی سفر نے انہیں روحانی سفر کی وہ راہ دکھلائی کہ جسے انہوں نے ابیات کی صورت میں ہمیں عطا کیا۔ ان کے تفکر و تصور کے طفیل یہ ابیات ہماری روح میں حل ہوچکے ہیں۔
شاہ سائیں کی شاعری میں دکھ کا بحر بیکراں بہتا ہے۔ مگر ان “دکھوں” کو بیان کرنے کیلئے انہوں نے محض “دکھ” یا محض لفظ “غم” استعمال نہیں کیا۔ جس سرخ غم کی شدت مختلف ہوتی اور پھر اس کے ساتھ ہی انسان کی کیفیت بھی مختلف ہوتی ہے۔ سو شاہ لطیف “شدتِ غم” کی کیفیات کو مختلف الفاظ کے صورت میں ادا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ لطیف کی شاعری ہمہ گیریت کی حامی اور وسیع الجہات ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کے ضخیم رسالے میں ان کی حزینہ شاعری کے حوالے سے ان کی سات سورمیوں کا دکھ ہے، جو سات سمندروں کے اترتے چڑھتے مد و جز کی صورت دکھائی دیتے ہیں۔ تو وہیں ان کی شاعری میں ہمیں “سُر سامونڈی” میں دکھ کی ایک مختلف کیفیت بھی نظر آتی ہے۔ ان کے “سُر گھاتو” کی ٹریجیڈی ایک انوکھی ٹریجیڈی ہے۔ اسی طرح ان کے “سُر کیڈارو” میں دُکھ اور کرب کی کیفیت اس قدر شدید ہے کہ آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں۔ “سُر کیڈارو” میں شاہ سائیں کی منظر کشی کمالیت کے درجے کو چھوتی ہے۔ اور ان کے الفاظ کا تال میل یگانہ ہے۔ دنیا کی کسی بھی زباں کی شاعری میں نہ ایسی منظر کشی ہے اور نہ ہی الفاظ کا ایسا تال میل میرے وسیع مطالعے سے گذرا ہے۔ شاہ لطیف کے الفاظ کا صوتیاتی تاثر، سروں کا اتار چڑھاؤ، تجنيس حرفی کا جادو، جذباتی آہنگ، یہ سب سُر کیڈارو میں مل کر، میدا ن کا ر زار کو ہماری آنکھوں کے سامنے آن کھڑا کرتے ہیں۔ اور ہم سندھ کے اعلیٰ نسل کےگھوڑوں پر سوار ان سورمائوں کو نیزے اور تلواریں تانے، کھلی آنکھوں سے لڑتے بھڑتے، مرتے ، مارتے، تلواروں کو بجلی کی طرح ندتے اور خون میں لت پت بہادروں کو ان کی شاعری کے “میداںِ کار زار” میں دیکھتے ہیں۔ چودہویں کے چاند کی طرح چمکتی پگڑی پہنے، ان سورمائوں کی داڑہیان خون میں سُرخ ہیں، اور ان کے سفید چمکیلے دانت انار کے پھولوں کی طرح سرخ ہیں اور ان بہادروں کی مائیں حضور پاک کی مجلس میں فخر سے مسکرا رہی ہیں:
[b]ڏاڙهي رت رتياس، ڏند ته ڏاڙهون گل جيئن،
چوڏهين ماه چنڊ جيئن، پڙ ۾ پاڳڙياس،
تنهن سورهيه ڪي شاباس، جو مٿي پڙ پُرزا ٿئي.[/b]
اور شاہ کی شاعری میں اگر خوشی کی کوئی حد نہیں، تو دکھوں کی بھی کوئی حد نہیں:
[b]نڪو سنڌو سُورَ جو، نڪو سنڌو سڪ.
[/b] میں نے دنیا کی اعلیٰ ترین شاعری کا مطالعہ کیا ہے۔ مگر مجھے شاہ لطیف کی شاعری کی صرف و نحوی تراکیب، شاہ کے اعلیٰ و ارفع تفکرات و تصورات، ان کا نیرنگی خیال، شاہ کی تمثال کا کمال، ان کی اعلیٰ علامات، ان کے شاعری کے اسالیب، صنائے بدائع، نازک خیالی اور بلند خیالی مجھے کہیں اور پڑھنے اور سننے کو نہیں ملی۔ شاہ کی شاعری میں فلسفئہ غم کو بیان کرنے کے لئے بہت وقت درکار ہے۔ جو نہ آپ کے پاس ہے اور نہ میرے پاس، اسی لئے ان کے خوبصورت ترین ابیات میں سے آخری بیت پڑھنا چاہوں گی کہ جس میں شاہ سائیں نے غم کے سبب و علل کو تین سطروں میں سمودیا ہے:
[b]سُورن سانڍياس، پُورن پالي آهيان،
سُکن جي سيدَ چئي، پُکي نه پياس،
جيڪسِ آئون هياس، گُري گُندر ول جي![/b]
سسئی خود کو “غم کی بیل کی گُری” یعنی بیچ کہتی ہے۔ غم ِبیج سے غم ہی پیدا ہوگا۔ اس قدر خوبصورت اور نازک خیال ہمیں دنیا کے کسی اور شاعر کے ہاں نہیں ملتا. ان کی شاعری انفرادیت، یکتائیت اور آفاقیت کی حامل ہے، جو یقیناَ اٹھارویں صدی کا معجزہ ہے۔