لوڪ ادب، لساني ۽ ادبي تحقيق

شاهه لطيف جي شاعريءَ ۾ درد جو جمال

لطيفيات جي موضوع تي شاھ لطيف جي شاعريءَ ۾ سمايل درد جي جمال بابت مختلف سنڌي ۽ اردو مقالن ۽ مضمونن جي مجموعي جي ترتيب ۽ تدوين نامياري محقق ۽ شاعر ڊاڪٽر فياض لطيف جي محنت جو ثمر آھي. ڪتاب ۾ 26 سنڌي ۽ 6 اردو مقالا شامل ڪيا ويا آھن. اڪبر لغاري لکي ٿو:
”ڊاڪٽر فياض لطيف نوجوان محقق ۽ سُچيت نقاد آهي. هُن شيخ اياز جي جمالياتي شاعريءَ تي پي ايڇ ڊي ڪئي آهي، سندس اهو تحقيقي ڪم پنهنجي حوالي سان وڏي اهميت جو حامل آهي، پر هُن وٽ شاهه لطيف جي شاعريءَ جي اڀياس ۽ ڇنڊڇاڻ جي حوالي سان پنهنجي بصيرت ۽ هڪ پنهنجو نقطه نظر آهي. هُن لطيف جي مختلف فني ۽ فڪري نقطن تي جديد تحقيق ۽ تنقيد جي روشنيءَ ۾ چڱو ڪم ڪيو آهي، پر درد جي موضوع تي مختلف عالمن جي ترتيب ڏنل مقالن/ مضمونن (جنهن ۾ هن جو پنهنجو هڪ مقالو به آهي) تي محيط سندس هي ڪتاب، ”شاهه لطيف جي شاعريءَ ۾ درد جو جمال“ پڻ انتهائي قيمتي ۽ ڪارائتو آهي.“
  • 4.5/5.0
  • 1523
  • 373
  • آخري ڀيرو اپڊيٽ ٿيو:
  • فياض لطيف
  • ڇاپو پھريون
Title Cover of book شاهه لطيف جي شاعريءَ ۾  درد جو جمال

سُر دیسی کا فلسفہِ غم: مرزا کاظم رضا بیگ

سرتاج الشعرا حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام میں غم کا عنصر انتہائی عروج پر نظر آتا ہے۔ ان کے رسالے میں علم و عشق کی نازک خیالی نے نیا روپ اختیار کیا ہے۔ آیئے ذرا ان کے ’سُردیسی‘ کا تجزیہ کریں اور دیکھیں کہ عشق و محبت کی داستان کو انہوں نے کس طرح سے بیان کیا ہے۔
شاہ سائیں کے ہاں انسانی زندگی محبت سے عبارت ہے۔ اگر یہ نہیں تو زندگی بے رنگ اور بے کیف ہے۔ انہوں نے اپنے کلام میں عشق کے مختلف مدراج کو بڑی خوبی سے واضح کیا ہے اور اپنے تخیل کی مدد سے وہ جس چیز کو عشق کہتے ہیں، وہ خالص انسانی چیز ہے، اس کی شدت اور حرکت کے ہر راز سے وہ بخوبی واقف ہیں۔ محبت کرنے والا ایک قسم کی طلسمی فضا میں زندگی بسر کرتا ہے، جو جذبے اور تخیل کے میل سے پیدا ہوتی ہے۔ شروع شروع میں اس کا پتہ بھی نہیں چلتا کہ دل چاہتا کیا ہے؟ فطرت کی شدت اپنی کسی منشا کی تکمیل کے لئے پراسرار طریقے اختیار کرتی ہے۔ کبھی ایسا معلوم ہوتا ہے، جیسے پر دہ راز سے کوئی پکار رہا ہے:
مت جا، مر جاوں گی ساجن! اونٹ کی موڑ مہار،
اس برہن کے آنگن میں تو، قدم تو دھراک بار،
ہجر کا ہر دن یار، یوم ِقیامت جانوں!
شاہ لطیف کا ’ سردیسی‘ غم و یاس اور سوز گداز میں رچا ہوا ہے۔ اسی لئے اس میں بے پناہ تاثیر ہے۔ انہوں نے جس غم کا ذکر کیا ہے، وہ زندگی کی اساسی حقیقت ہے۔ اس کے بغیر انسانی سیرت نہیں بن سکتی اور اس کی پوشیدہ قوتیں اور صلاحیتیں نہیں اُبھر سکتیں۔ عشق کی آگ میں جب جذبات تپائے جاتے ہیں، تو ان میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ شاہ سائیں کا عشق خالص حقیقی عشق ہے۔ وہ مجاز سے بہت آگے آسمان کی بلندیوں تک پہنچ چکے ہیں۔ میرے خیال میں یہی ان کے کلام کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ چونکہ ان کے جذبات اصلی ہیں، اس لئے عشق کی وارداتوں کی مصوری میں فطری سوز اور درد پیدا هو گیا ہے۔ حقیقی عشق و محبت کی کسک نے انہیں صاحبِ نظر بنادیا اور ان کی ہر بات میں گہرائی پیدا کردی۔
شاہ لطیف ایک عاشقِ حقیقی تھے اور عاشق کی ہر بات دنیا والوں سے الگ ہوتی ہے۔ اس کا ہر انداز نرالا اور اس کی ہر شان میں انوکھا پن ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کی اختیار کی ہوئی راہ پر نہیں چلتا، بلکہ اپنی الگ راہ نکالتا ہے۔ چاہے وہ سیدھی ہو یا ٹیڑھی، اس سے اسے بحث نہیں۔ اگر ٹیڑھی ہے تو ہوا کرے۔ اس کو یہ اطمینان کافی ہے کہ اگر وہ بھٹکے گا، تو بھی ہی راہ پر بھٹکے گا۔ اس کی اصل منزل تو خود اس کا اپنا دل ہے، جس تک اس کی رسائی ہونی چاہیئے۔ اس کے علاوہ وہ کچھ اور نہیں چاہتا۔ دوسرے غم سے گھبراتے ہیں، لیکن عاشق غم کی پرورش کرتا ہے۔ لذتِ الم اس کا سب سے زیادہ قیمتی سرمایہ ہے، جس کی وہ چُھپا چھپا کر حفاظت کرتا ہے۔ کبھی یہ لذت ِالم دائمی حسرت کا روپ اختیار کرتی ہے ، جو تخیل کے لئے زبردست محرک بن جاتی ہے اور اُس کی بدولت آرٹ کی تخلیق جلوہ گر ہوتی ہے۔
دنیا والوں کا قاعدہ ہے کہ رنج ،الم اور مصیبت کو دور کرنے کے لئے دعا کرتے ہیں۔ مذہب کہتا ہے کہ، ’دعا مانگو تاکہ تمہاری احتیاج پوری کی جائے‘۔ اگر شدتِ خلوص سے کوئی چیز طلب کی جائے تو ضروری ہے کہ وہ حاصل ہو۔ عاشق کہتا ہے کہ اگر میں دعا مانگوں گا تو وہ ایک طرح کی شکایت ہوگی۔ مذہب کہتا ہے کہ دعا سے بہت سی آنے والی بلائیں ٹل جاتی ہیں۔ عاشق کہتا ہے کہ میں تو بلاوں کو دعوت دیتا ہوں۔ ان کے بغیر زندگی اجیرن ہوجائے گی۔ جب تک غم ِزیست کی خلش نہ ہو، زندگی کس کام کی؟
خوگرِ غم کے لئے نالہ کشتی حسن طلب ہے۔ اس کے نالے شکوہ ِجفا کے لئے نہیں بلکہ تقاضائے جفا کے لئے ہوتی ہیں۔ شاہ سائیں سردیسی میں فرماتے ہیں کہ:
راہِ یار میں آڑے آئے، یہ اونچے کہسار،
’برفت‘ اور ’بروہی‘ لے گئے، میرا وہ کوہیار،
روتی ہوں اے یار!، دیکھوں تیری صورت!
**
جس جا آڑے ترچھے پتھر، مشکل ہے ہر گام،
یار سے دی ہیں صدائیں ساجن، لے کر تیرا نام،
سنی صدائیں ساجن نے اب، سسئی دل کو تھام،
آہیں تیرا کام، سننا کام ہے ہوت بلوچ کا۔
**
مشکل پربت دور، سفر اور دشت و جبل ویران،
کیا کیا سیانے بھٹک گئے اور حیراں ہوئے جوان،
کہے لطیف کہ پیار بسا کر، پار کیا میدان،
مہر کرے اسی آن، تو پھر کیا ڈر ان راہوں کا!
**
جنگل پربت، دور سفر اور ہائے یہ ریت کے نیلے،
آڑے ترچھے پربت ہیں اب، کروں یہاں کیا حیلے؟
جس نے دکھڑے جھیلے،پہنچا اس کو کیچ میں سائیں!
اس میں شبہ نہیں کہ غم، زندگی کی ایک ضرورت ہے۔ اگر آرٹ کے ذریعے حیات ِاجتماعی میں اس کی قدر حد سے زیادہ کی گئی تو اندیشہ ہے کہ جماعت کی عملی صلاحیتوں پر اس کا برا اثر پڑے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگر کسی جماعت افراد درد مندی کے احساس سے بے اعتنائی برتتے ہیں، تو اس کا لازمی نتیجہ ہوگا کہ پوری جماعت کا تحت الشعور متاثر ہوگا اور وہ بے رحمی کے ایسے وسائل دریافت کرے گی، جو دوسروں کو بھی مبتلائےِ غم کرے گی۔ مثلاَ جنگ کے ذریعے غم کی ضرورت کی تکمیل کی جائے گی۔ جب دل غم کے لطیف کسک سے آشنا نہیں ہوتا، تو وہ بے رحمی پر اتر آتا ہے۔ اور دوسروں کو مبتلائےِ غم کرنے میں لذت محسوس کرتا ہے۔ اس لئے آرٹ میں غم کے عنصر ِحیات کو اس طرح سے پیش کرنا چاہیئے کہ جذبات کی تہذیب ہوسکے۔ شاہ سائین نے غم کے ذریعے تہذیب جذبات کا کام لیا ہے، جو یقیناَ قابل قدر ہے۔
شاہ لطیف نے غم کو نیا مزاج دیا اور اسے نئے آداب سکھائے۔ اس نے زندگی کو غم سے ہم آہنگ کردیا۔ غم کی ہرادا میں اس کو نئی کیفیتیں محسوس ہوتی ہیں۔ یقیناَ شاہ لطیف کا ترانہ غمِ تکملہ کا حکم رکھتا ہے۔ زندگی میں غم بھی ہے اور خوشی بھی۔ آہ و نالہ بھی ہے اور تبسم اور قہقہے بھی ناکامیاں بھی ہیں اور کامرانیاں بھی:۔
زمانہ جام بدست، و جناز بردوش است
شاہ لطیف کے سردیسی میں غم کے متعلق بے نظیر حکیمانہ ابیات ملتے ہیں، جنہیں سن کر مشائخ کے ذہن میں غم کا وہ تصور آتا ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کہ انسان اپنے مقدر سے جنگ آزما ہو۔ یہ غم زندگی کا تخلیقی عنصر اور اس میں توازن قائم کرنے کا ذریعہ ہے۔ ان شاہکار ابیات پر ہمارا سندھی ادب جتنا بھی ناز کرے کم ہے۔ یہاں سردیسی سے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں، جو غم کے متعلق ہیں:
دیکھ تو دکھیارن پر کیا کیا، اس نے ڈھائے ستم،
ناوکِ عشق چبھا ہے دل میں، تڑپوں میں ہردم،
حال کے ہیں محرم، اب تو حیوان صحراوں کے۔
**
مار رہا ہے موہے، تیرا درد فراق،
اس کا درد ہی مار رہا ہے، جس کا من مشتاق،
انگ انگ ہے چور تکھن سے، دشت ہیں ہیبت ناک۔
**
جو پریت کے پار گئے ہیں، میں ان کی پریت کی ماری،
یار کو لے گئی ساتھ جو میں ان، ناقوں کی بلہاری،
پریت میں فریاد کروں اب، میں دکھیا بے چاری،
دھوبن بن کر پلی ہوں لیکن، میں ہوں بھانبھن ناری۔
شاہ سائیں نے اپنے مخصوص انداز میں حُسن و عشق کے معاملات اور زندگی کے اسرار اور رموز بیان کئے ہیں، جن کی تشریح وہ غم ہی کی زبان سے کرتے ہیں۔ ان کے خیالات فرضی نوعیت کے نہیں ہیں، بلکہ صداقت اور خلوص پر مبنی ہیں، اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر بیت محسوس کرکے لکھتے ہیں۔ اور ان کے احساس و تاثر میں ایک خاص قسم کے گہرائی تھی، جسے تحفهِ غم سمجھنا چاہیے۔
اللہ! میرے انگنا آجا، ساجن پل دو پل،
ہر جا ہر صورت میں تیری، باندی ہوں سُہنل!
میرے اوگن عیب چھپائے، کاش کہ وہ نرمل،
میرے ہوت پنہل، لے جا اس دھوبن کو سنگ.
شاہ لطیف نے غم کی اساسی حقیقت کو محسوس کیا اور اپنے رسالے میں اُسے بڑی وسیع معنوں میں استعمال کیا، لیکن وہ ہر وقت اور موقع موقع ماتم کناں نظر نہیں آتا۔ اس کا غم، ضبط کا دامن کبھی اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ زندگی میں غم کی اساسی حقیقت کو اس دائی میں کس خوبی سے ظاہر کیا ہے کہ:
تڑپے مورا من، میں پاس پیا کے جاوں گی!
لب پر باتیں کیچ سفر کی، رہیں گے کب اس آنگن ،
من میں ملن کی آس ہے مولا! دکھا دے یار کا درشن،
دشت و جبل کے رنج والم سب، یار ہیں تیرے کارن،
وصل کا تو نے عہد کیا تھا، پورا کر اب ساجن!
پریت کی ایسی اگن جلائی، سلگے ہے تن من،
کام کریم کرے گا پورے، گھبرائے برہن،
کہے لطیف کہ آس بندھی ہے، کرے گا یاد وہ ساجن.
غمِ دل کے مکتب میں انسان ہمیشہ سبق لیتا رہتا ہے۔ اور ہمیشہ اس کی حیثیت ایک مبتدی کی رہتی ہے: اس طرح کہ غم کی تکمیل کبھی نہیں ہوتی۔ برخلاف اس کے عیش و فراغت کی انتہا پر انسان بہت جلد پہنچ جاتا ہے اور اسی لئے اس سے اتنا ہی جلدی اُکتا بھی جاتا ہے۔
ملیں گے راہ میں وحشی حیواں، دشت بڑا ہے ویراں،
تیری آہ و بکا سے سسئی! گونجے گا یہ بیاباں،
جن سے لاگے نیناں، وہ مولا، اب تو ملا دے۔
شاہ سائیں کے ہاں غم مختلف شکلیں اختیار کرتا ہے۔ کبھی غمِ روزگار کی اور کبھی غم ِعشق کی اور کبھی دائمی تمنا اور انتظار کی۔ غمِ عشق کی بدولت غمِ روز گار سے بآسانی نجات حاصل ہوسکتی ہے۔
یہ ناقے، یہ دیور، پربت، دیئے ہیں سب نے دکھ،
تیرے ملن کی آس میں، میں نے ہر دکھ جانا سکھ۔
غمِ عشق کا چَسکا ایک دفعہ پڑنے کے بعد چھٹتا نہیں۔ اس کے انداز ِجنوں سے دل بصیرت افروز ہوتا ہے، اور پھر اس کے آگے کسی دوسرے کی نہیں مانتا:
یہ ناقے، یہ دیوار، پربت، سب نے ڈھائے ستم،
ڈھونڈھوں ہوت کے نقش پا اور رکھوں میں تیز قدم،
راہ کے رنج والم، قسمت کا ہی کھیل ہے سارا۔
عشق و محبت میں زندگی ایک دائمی مہجوری کی کیفیت بن جاتی ہے اور اس فراق و محرومی کی حالت میں دل کو سیرِ گلشن کی تاب نہیں رہتی۔
ان جانے، ان دیکھے ناقے، آئے جو تیرے آنگن،
اپنی زلف کی زنجیروں سے، باندھتی ایسے بندھن،
دشت کی راہ کٹھن، پھر کیوں دیکھنا پڑتی۔
اس احساس ِمہجوری کا سبب محروميِ حُسن کی تڑپ ہے۔ اس جستجو میں انسان ہمہ تن چشمِ شوق بن جاتا ہے:
جیئیں سدا یہ جت، جو جی کر ڈھائیں ستم،
تجھ بن میرا کوں سہارا، اور سے کیا نسبت،
تجھ سے میری الفت، کبھی بھی ٹوٹ نہ پائے۔
حسن کی نارسائیاں، تمنا کی آگ کو بھڑکاتی ہیں، یہاں تک کہ عشق میں ایک ایسا مقام آتا ہے کہ عاشق، حسن ِمحبوب سے بے نیاز ہوکر تمنا کی خاطر تمنا کرتا ہے۔ تمنا کی خاطر، اچھوتا مضمون ہے جو صرف شاہ سائیں کے ہاں ملتا ہے:
پریت کی اگنی جلائی جت نے، میں تو تھی انجان،
خود تو جا آرام سے بیٹھے، درد مجھے ہر آن۔
شاہ سائیں کا تصور ِغم، دیگر شعراءِ سندھ کے تصور سے بہت مختلف ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ شاہ سائیں بھی اس کے قائل ہیں کہ زندگی کی اساسی حقیقت غم ہے۔ لیکن ان کے نزدیک اس عمارت کے در و دیوار پر ایسے نقش و نگار بھی ملتے ہیں، جو پُر مسرت اور جاذب نظر ہیں اور جن میں اتنی کشش ہے کہ وہ غم کے احساس کو بھی بھلا دیتے ہیں، چاہے وہ عارضی طور ہی کیو‏ں نہ ہو۔ غم اور ناامیدی کی تاریکی میں بھی شاہ لطیف کی حقیقت شناس آنکھ نے امید کی کرن دیکھی کہ یہی انسانی زندگی کی ضامن ہے۔ چنانچہ زندگی کے پر امید گوشون پر اس کی نظر گئی اور اس نے انہیں سمجھنے کی کوشش کی۔
شاہ سائیں کے ’سُردیسی‘ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خالقِ فطرت نے جب دیکھا کہ انسان اپنی انفرادیت کے خول میں ایسا بند ہے کہ اس سے باہر آنے کی ضرورت ہی نہیں محسوس کرتا، تو اس نے انسانی دل کو غم ِعشق کی کسک سے آشنا کردیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو خودی اپنے آپ میں گھٹ کر فنا ہوجاتی۔ غمِ عشق بھی فنا (ٹریجیڈی) کی طرف لے جانا چاہتا ہے اور لے جاتا ہے۔ اگر اس پر مذہب و اخلاق کی بندشیں نہ عائد ہوں، جن کے بطن سے تہذیب جنم لیتی ہے۔ شاہ لطیف کا پورا کلام ہمیں عالمِ عشق کی سیر کراتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ سچ ہے کہ میں سراپا رهینِ عشق ہوں، لیکن اس کے ساتھ میری فطرت میں زندگی سے الفت و دیعت ہے۔ غمِ عشق کا منتہا چاہے موت اور ٹریجیڈی ہو، لیکن باوجود اس کے زندگی کی گہرائیون میں سے کوئی سرگوشیاں کرتا ہوا سنائی دیتا ہے کہ تیرا مقدر فنا نہیں بقا ہے۔
عشق اور غم، شاہ لطیف کی شاعری کے دائمی موضوع ہیں۔ ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی پُر اسرار حقیقت نہیں۔ شاہ سائیں کی عاشقانہ شاعری آپ کو درد د و الم کے خیالات سے الگ نہیں رکھ سکتی۔ عشق کا خاصہ جذب ِغم ہے، جس سے محبت کی جاتی ہے، اس کے لئے سہے جاتے ہیں کہ بغیر اس کے اخلاص مشتبہ رہے گا۔ عشق بغیر غم کے عناصر کے تکمیل پذیر نہیں ہوسکتا۔ بغیر ادراکِ غم خود انسانی شخصیت ادھوری رہتی ہے۔ غم کی دھیمی آنچ میں سلگنے سے شخصیت کے جوہر نکھرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ انسانی زندگی میں غم کے عناصر ایسے پیوست ہیں کہ انہیں اس سے علحدہ کرنا ممکن نہیں، خوشی اور مسرت کے گریز پالمحوں کی یادیں فراموش ہوجاتی ہیں، لیکن غم کی یاد دل سے کبھی نہیں جاتی۔ اس کے نقوش ایسے گہرے ہوتے ہیں کہ زمانے کے ہاتھ سے بڑی مشکل سے بھرتے ہیں۔ شاہ سائیں کی سردیسی میں جذبہ ِغم وہی حیثیت رکھتا ہے، جو مغربی ادب میں ٹریجیڈی (المیہ) کو حاصل ہے۔ ہر زبان کے ادب میں المیہ ہی کا مرتبہ آپ بلند پائیں گے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غم زندگی کی ایک اساسی شے ہے۔ زندگی کی یہ کوشش اپنی تکمیل اور تحقق کی راہ پر گامزن ہو، اپنے جلو میں غم کی پر چھائیاں چھوڑ جاتی ہے۔ انسان کا یہ احساس کہ زندگی کی ابھی تکمیل باقی ہے، بجائے خود غم آگیں ہے۔ پھر ہر قسم کی سعی و جہد جو اس راہ میں کی جاتی ہے، الم انگیز ہوتی ہے۔ زندگی کچھ عجیب سی چیز ہے۔ جتنا اس معمے کو بوجھنے کی کوشش کی جاتی ہے، اتنا ہی وہ الجھ جاتا ہے۔
لے گئے میرے ہوت پنہل کو، رے ظالم دیور،
برپا ہے اک محشر، گویا یومِ قیامت ہے۔