شاہ عبداللطیف بھٹائی _ نسوانی کردار اور فلسفئہ غم:پروفیسر سحر انصاری
1۔ اپنے خاندان اور سندھ کی صوفیانہ روایات سے آگاہی۔
2۔ قرآن کریم اور مثنوی مولانا روم کا غائر مطالعہ کیونکہ یہ دونوں کتابیں سفر میں شاہ صاحب کے ساتھ ہوتی تھیں۔
3۔ شاہ صاحب کی دیدہ ورانہ سیر و سیاحت جس کے تحت انہیں سندھ کے چپے چپے کے کلچر رسم و رواج، زبان و بیان یہان تک کہ پیڑ، پودوں، پھلوں، جڑی بوٹیوں اور پنکھ پکھیر اور حیوانات تک کی خصوصیات کا گہرا شعور حاصل ہوا اور اس سے انہوں نے اپنی شاعری میں غیر معمولی انفرادیت اور عظمت کو سمودیا۔
4۔ ان سب کے ساتھ وه غیر معمولی وجدان اور تخلیقی علویت (Creative Sublimity) تھی، جو فطری طور پر ہر بڑے شاعری میں موجود ہوتی ہے۔
شاہ صاحب کے کلام کی عظمت کا خیال آتے ہی مجھے کلاسیکی عہد کے فلسفی اور نقاد لانجائینس (Longius) کے تصورِ علویت یا نظریہِ رفعت (Theory of Sublime) کے نکات اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں۔
لانجائینس کی طرح بیشتر اہلِ ذوق اور شیدائیانِ ادب کو آج بھی یہ کھوج رہتی ہوگی کہ عظیم شاعری کس کو کہتے ہیں؟ یہ کیسے معرضِ تخلیق میں آتی ہے؟ اور اس کی عظمت کی نشانیاں کیا ہوتی ہیں؟ اس کا ایک سیر حاصل جواب لانجائینس نے دیا ہے۔ ممکن ہے اس سے کچھ اذہان مکمل طور پر متفق نہ ہوں لیکن مجھے اس کا استد لال یوں پسند ہے کہ اس سے تخلیق کی عظمت تک پہنچنے کا ایک راستہ متعین ہو سکتا ہے۔
اس نے سب سے پہلا نکتہ تو یہ رکھا ہے کہ، شاعر کو فطرت کی طرف سے شعر گوئی کی عظیم صلاحیت و دیعت ہوئی ہو۔ پھر اس کا موضوع بھی عظمت کا حامل ہو۔ پھر اس کو قدرتِ کلام اس درجے کی حاصل ہو کہ، وہ صنائع معنوی و لفظی کو اسطرح اپنے کلام کاجزو بنائے کہ اس کا وحدت ِتاثر تخلیق فطری اشارہ بن جائے۔ پھر یہ کلام ایسا ہو کہ، ہر زمانے میں ہر سن و سال کا انسان اس سے حظ و مسرت اور اقدارِ حیات کی روشنی اور توانائی حاصل کر سکے۔
اس معیارِ عظمت پر “شاہ جو رسالو” حرف بہ حرف پورا اترتا ہے۔ یوں تو شاہ عبداللطیف بھٹائی کےکلام میں موضوعات کی ایک پوری کائنات آباد ہے لیکن یہاں ہمیں ان کی عشقیہ شاعری میں فلسفئہ غم کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے۔
عام انسان زندگی میں خوشی اور مسرت کی تلاش و جستجو کرتا ہے اور غم و آلام سے گریزاں رہنے کے اسباب بہم کرتا رہتا ہے لیکن جب وہ اپنے وجود کی حیوانی سطح سے بلند ہوکر پوری انسانی نوع کے بارے میں سوچتا ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہے۔ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ شاہ صاحب کا فلسفئہ غم انسان کو تہذیب ِنفس اور وسیع تر آگهی کی طرف لے جاتا ہے۔ اپنے جیسے مظلوم اور غم رسیدہ انسانوں سے درد کا رشتہ اس طرح استوار کرتا ہے کہ پوری انسانیت ایک اکائی، ايک وحدت بن جاتی ہے۔
بر صغیر پاک و ہند میں جو اکابر علم و دانش کی نسبتوں سے مشہور ہوئے ،ان کے یہاں کے تہذیبی اور تاریخی تناظر میں دیکھنا لازمی ہوجاتا ہے۔ پاکستان جن علاقوں میں متشکل ہوا وہاں موئن جو دڑو، ٹیکسلا اور ہڑپا جیسے تاریخی حوالے موجود ہیں۔ خود موئن جو دڑو اپنی قدامت اور اپنی تہذیب کی بنا پر اظہار کے نت نئے پیرايوں کی سمت اہلِ فکر و دانش کو متوجہ کرتا رہتا ہے۔ پھر اس سرزمین پر ویدانت، گوتم بدھ کی تعلیمات، ہندومت کی جھلکیاں، اسلامی اثرات کے تحت عرب وسط ایشیا، افغانستان، ترکی اور ایران کے افکار و تصورات کی آمیزش خاص طور پر قابلِ وجہ رہی ہے۔
شاہ صاحب نے زمینی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے، کائنات گیر شاعری کے بے مثال نمونے پیش کیے ہیں۔ انہوں نے تمثیلی پیرایے میں عوامی کہانیوں اور داستانوں کو اس طرح بیان کیا ہے کہ سندھی زبان کی عام سوجھ بوجھ رکھنے والوں سے لے کر عالم، فاضل اور دانشور تک یکساں طور سے شاہ صاحب کے کلام کے سحر میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ ایسی ہی شاعری کو ساحری کے نام سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔ شاہ صاحب کے یہاں عشق کا بڑا رتبہ ہے جیسا کہ تمام اہلِ دل اور صوفیائے کرام کا خاصہ رہا ہے۔
عشق محض ایک لفظ نہیں بلکہ انسانی تجربہ ہے، جس میں پورا انسانی وجود شامل ہو تا ہے۔ پھر ہمارے معاشرے میں تصوف کے زیرِ اثر عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی کے تصورات بھی موجود ہیں۔ اس عشق ِحقیقی کے محرکات اور آداب و اثرات پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ جو کیفیات کسی کے قلب و ذہن پر طاری ہوتے ہیں، انہی کی بنیاد پر وہ اپنے تجربے بیان کرتا اور ان کے لیے شاعرانہ پیرایے اختیار کرتا ہے۔ عشق کی کیفیات پر جو بیانات ملتے ہیں، انہیں بھی شعراءِ حضرات نے سن سنا کر اپنے کلام کا حصہ بنالیا ہے ۔ ایسے شعرا ءکو اہل ِقال میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ لیکن شاہ عبداللطیف اہلِ حال سے تھے۔ انہیں یہ تجربہ اپنی تمام تر گہرائیوں اور سچائیوں کے ساتھ حاصل تھا ،جس کے اظہار کے لیے انہوں نے حکایات، کردار، تماثیل اور علامات وضع کیں۔ موسیقی اور داستان کی آمیزش سے غم کے محرکات، کردار، تماثیل اور علامات وضع کیں۔ موسیقی اور داستان کی آمیزش سے غم کے محرکات اور اس کی ماہیئت تک نہ صرف خود رسائی حاصل کی بلکہ ہر دؤر کے انسانوں کو اس غم سے آگاہ کردیا۔
ادب کی تخلیق اور تاثیر فقط بیان ِحقیقت کا نام نہیں ،بلکہ اس میں جمالیاتی اظہار کو بھی بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ علامات اور استعاروں سے کام لیا جاتا ہے۔
بقول غالب:
ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو،
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر.
شاہ لطیف نے بھی داستانوں اور سُروں کے پردے میں وہ کردار ابھارے ہیں، جو انسانی اقدار کی علامات بن چکے ہیں۔ سوہنی، لیلا، مومل، سسئی، ماروئی محض کردار نہیں، بلکہ جیتی جاگتی حقیقتیں ہیں۔ اور ان کا ادراک اور احساس اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک انسان کے جسم میں خون کی گردش اور اس کے سینے میں دل کی دھڑکن باقی ہے۔ شاہ صاحب کی ان داستانوں میں غم کا جو فلسفہ مضمر ہے ،اس کی تفہیم اور اس کی ماہیئت کو لطیف شناسی کا جزو اعظم سمجھنا چاہیے۔ غم کی ایک معمولی سطح تو یہ ہوتی ہے کہ کسی ناکامی یا کسی المیے پر افسردہ ملول یہاں تک کہ غم سے مغلوب ہوجائیں۔ لیکن یہ غم سے متاثر ہونے کا سطحی انداز ہے۔ ایک بڑا فنکار یا عظیم انسان غم کو ارضی حقائق سے متعلق رکھتے ہوئے، ماورائیت تک لے جاتا ہے . جیسا کہ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے کیا۔ اسی کو انسانی تجربے کی عظیم رسائی Sublimation of Human Experience کہا جاتا ہے۔ شاہ صاحب نے غم کو انسانی کمزوری کے بجائے زندہ رہنے کی طاقت بنا دیا ہے۔ سسی اور ماروئی کے غم انہیں جدوجہد کرنے کا سلیقہ اور آدرش عطا کرتے ہیں اور ان کے آدرشوں سے ہم آج بھی روشنی اور حرارت حاصل کرتے ہیں۔
شاہ لطیف کا فلسفئہ غم، جو ان کی عشقیہ شاعری کے کرداروں کے توسط سے اجاگر ہوتا ہے، اس حقیقت کا مظہر ہے کہ عشق ایک نصب العین ہے .انسان پر جو مصائب اور شدائد وارد ہوتے ہیں، وہ اس کے وجود کو دو ٹکڑے کردیتا ہے لیکن وہ اپنی راہ سے جسے شاہ صاحب ’صراطِ مستقيم‘ کہتے ہیں، زرہ برابر بھی نہیں ہٹتے۔ اپنے عشق پر قائم رہتا ہے۔ شاہ صاحب “شاہ جو رسالو” کے آغاز ہی میں فرماتے ہیں:
“یہی وہ لوگ ہیں، جن کے قدم صراط مستقيم سے بھٹکنے نہیں پاتے .یہی وہ لوگ ہیں، جو تن بریدہ ہیں، وحدہ لاشریک ہیں اور اللہ نے انہیں دو ٹکڑے کردیا ہے۔”
ان کشتگانِ وحدت کو دیکھ کر
کون ہے جو کشتہ ہوجانے کی تمنا نہ کرے گا
اس میں اس کی وحدت اور حقیقت آشکار ہے
لیکن جنہوں نے باطل دوئی کو اختیار کیا
وہ فی الحقیقت زندگی کے ذائقے اور ملاحت سے محروم ہوگئے۔
شاہ صاحب نے اس فلسفے کو تمثیلات کے پیرائے میں بیان کیا ہے۔ اس کا اثر اسی لیے بہت گہرائی میں لے جاتا ہے۔ سوہنی مہیوال کے قصے میں سوہنی کا کچے گھڑے پر طوفانی ندی کو پار کرنا ایک تمثیل ہے، کہ بڑے مقصد کے لیے جان قربان کر دینا بظاہر ایک غم ناک صورتحال اور ٹریجڈی ہے لیکن اس کا حاصل اپنے مقصد کو گلے لگانا ہے۔ یہاں طالب و مطلوب کے متصوفانہ استعارے سامنے آتے ہیں لیکن اس میں سماجی اور سیاسی انقلاب اور اس کے لیے آخری سانس تک جدوجہد کرنا یہاں تک اپنی جان قربان کر دینا، زندگی کے ارتقا اور انقلابِ زیست کے لیے ناگزیر ہے۔ شاہ صاحب نے اپنے ان الفاظ میں جس قدرت ِکلام کا جادو بھردیا ہے ،وہ بے مثال اور بے حد متاثر کن ہے۔
[b] سهسين سائر ٻوڙيون، منڌ ٻوڙيو مهراڻ.
[/b] اس دریا نے تو کئی خوبصورت عورتوں کو ڈبودیا تھا۔ مگر سوہنی نے تو دریا ہی ڈبودیا۔
سوہنی کو شاہ صاحب نے منفی قوتوں کی شکست اور تسخیر ِ کائنات کا اشارہ بنا دیا ہے۔ موت اور ہلاکت ایک المیہ ہے لیکن شاہ صاحب نے اس میں جو فلسفیانہ نکتہ پیدا کیا ہے، وہ بہت بلیغ ہے . فرماتے ہیں:
’اگر سوہنی دریا میں داخل نہ ہوتی ،تو اس کو کون جانتا.مرنا تو اسے تھا ہی مگر اس طرح ڈوب کر مرنے سے اسے دوہرا مقصد حاصل ہوا‘۔
شاہ صاحب کے تمام تر کلام میں، ان کے عہد کے آشوب اور مغلیہ نیز کلہوڑہ دور کے سنگین واقعات کا عکس ملتا ہے۔ شاہ صاحب نے تصوف اور وحدت الوجود کی اصطلاحوں میں بات کئی ہے لیکن اس کی تہہ میں کہیں محدود نہ ہونے والی آفاقیت ہے۔ شاہ صاحب ماورائیت کی بات کرتے ہیں لیکن ان کے قدم دھرتی پر ہی رہتے ہیں۔ ان کا رشتہ اپنے عوام کے دلوں کی دھڑکن سے استوار رہتا ہے۔ عشق جیسے آدرش کے پردے میں انہوں نے ظلم و جبر کے خلاف بغاوت اور مزاحمت کی تلقین کی ہے۔ آج کی دنیا میں ہر طرف جبر، دہشت اور بربریت سر اٹھاتی نظر آتی ہے۔ ایسے میں شاہ عبداللطیف کے کلام کی آفاقیت اور عالمگیریت زمان و مکاں کی حد بندیوں سے مبرا ہو کر مظلوم اقوام کے لیے بہتر مستقبل کی نوید بن جاتا ہے۔ شاہ صاحب نے اپنے کلام کو ابیات نہیں بلکہ آیات قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری ہر عہد میں انقلاب آفریں ہے اور آئندہ بھی اس کی عظمت مظلوم اور مایوس انسانوں کے دلوں میں امید، حوصلہ اور یقین کی روشنی عام کرتی رہے گی۔