جو اپنی ذات میں ایک انجمن تھے مرحوم تاج محمد ابڑو / تحریر: سوبھو گیانچندانی
سیاسی اور علمی وادبی کتابیں پڑھنے کا شوق تو تاج محمد کو پہلے سے تھا، لہٰذا میں نے اسے سندھی کہانیوں اور شاعری کی کچھ مزید کتابیں اور ترقی پسند سندھی رسالے، خاص طور پر نئی دنیا اور عثمان ڈیپلائی کے تراجم منگوانے پر آمادہ کیا اور پھر درحقیقت وہ تاج محمد ابڑو ہی تھا، جس نے بذاتِ خود گہری دلچسپی لے کر لاڑکانہ میں سندھی ادبی سنگت کی تنظیم بھی قائم کردی تھی، جس کے اولین سرگرم کارکنوں میں ایاز قادری، جمال ابڑو، ہری دریانی دلگیر، انیس انصاری اویر وڈیرا علی محمد عباسی شامل تھے۔
کچھ عرصہ بعد میں اور تاج محمد دونوں سکھر گئے تو تاج محمد ابڑو مجھے سید شمس الدین شاہ کے پاس (جوکہ میرا ایک پرانا کلاس فیلو اور بعد میں خاکسار اور ہاری کمیٹی کا سرگرم کارکن بھی تھا) چھوڑ کر خود لاڑکانہ واپس آگیا۔ اس زمانے میں قاضی فیض محمد، شمس الدین شاہ، مولوی نذیر حسین جتوئی اور دوسرے لوگوں کے دمریان طریق کار کے بارے میں کچھ اختلاف چل رہا تھا، جس کی وجہ سے دو ہاری کمیٹیاں بن گئی تھیں۔ اس لئے تاج محمد ابڑو نے شمس الدین شاہ کو کسانوں میں کام کرنے پر آمادہ کیا اور اس نے بڑی دوڑ دھوپ کے بعد ایک ہی ہاری کمیٹی تشکیل دی، جس کے بعد پھر کسی چھوٹے موٹے اختلاف کی بنیاد پر یہ ہاری کمیٹی دو ٹکڑے نہ ہوئی۔
مرحوم تاج محمد ابڑو بیک وقت اچھے منتظم اور مجلسی طور پر بذات خود ایک انجمن تھے۔ ان کے ہاں سیاسی لیڈروں، روپوش کارکنوں اور ادیبوں کی ہمیشہ آمد ورفت رہتی تھی۔ ان کے تعلقات اس وقت کی تمام بڑی سیاسی شخصیتوں محمد ایوب کھوڑو، قاضی فضل اللہ، علی محمد عباسی، کامریڈ حاجی پیرزادہ، نبی بخش تنیو اور اس وقت کی ایک نئی ابھرتی ہوئی شخصیت ذوالفقار علی بھٹو سے قائم تھے۔ 1953ء میں جب سندھ اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو اس کیلئے سندھی عوامی محاذ کی طرف سے بیالیس امیدوار مزدوروں، کسانوں اور غریب طبقے کے عوام میں سے کھڑے کیے گئے۔ ان میں سات یا آٹھ امیدوار سائین جی۔ایم سید گروپ کے بھی تھے۔ تاج محمد ابڑو نے ان انتخابات میں عوامی محاذ کیلئے دن رات کام کیا۔ خاص طور پر میرا الیکشن آفس جو ہلے ہی اس کے دفتر میں قائم تھا (مگر بعد میں اسے مولوی نذیر حسین کی ایک کرائے کی دکان میں منتقل کردیا گیا تھا) اس انتخابی مہم کی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔ ہم نے بڑی تگ ودو کے بعد اس الیکشن کے دوران تمام پولنگ اسٹیشنوں پر اپنے نمائندے بٹھائے۔ آج کے دؤر میں آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ کراچی سے ڈاؤ میڈیکل کالج کے ترقی پسند طالب علم ڈاکٹر ہاشمی، ڈاکٹر خواجہ معین اور ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی وغیرہ (جوکہ اب اپنے پیشے میں چوٹی کے ڈاکٹر ہیں) بھی اپنے کئی دوسرے ساتھیوں کے ساتھ میرے علائقے میں سائیکلوں پر سوار ہوکر اور کئی جگہ میلوں پیدل چل کر اس الیکشن میں کام کرنے کیلئے آئے تھے۔ اس الیکشن میں کام کرنے کیلئے کراچی والا گروپ کامریڈ پوھو کی رہنمائی میں سرگرمے عمل تھا اور لاڑکانہ والے کارکنوں میں مولوی نذیر حسین جتوئی، دوست محمد ابڑو، کامریڈ تاج محمد ابڑو، نبی بخش کھوسو اور ان کے ساتھ سندھ کے بیشمار ہاری کارکن بڑی سرگرمی سے کام کرتے رہے۔ ظاہر ہے کہ الیکشن ہمیشہ سرمایہ دار امیدوار اپنی دولت کے بل بوتے پر جیتتے ہیں، مگر یہ غنیمت ہے کہ اس الیکشن میں ہم نے کل 18 ہزار درج ہونے والے ووٹوں میں سے 6 ہزار ووٹ حاصل کئے۔
ان دنوں حکومت کی طرف سے میری سخت نگرانی جاری تھی۔ میں اکثر تاج محمد ابڑو سے کہا کرتا تھا کہ میری وجہ سے کہیں تمہیں بھی پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑجائے، مگر ہمارا یہ دوست بڑا لاپرواہ واقع ہوا تھا۔ یہاں تک کہ اس کی محفلوں میں کئی بار ہر قسم کے لوگ پولیس افسروں سمیت بیٹھے رہتے تھے۔ جولائی 1954ء میں جب کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی تو مجھے رہا کرکے جیل میں ڈال دیا گیا، مگر جولائی 1956ء میں خرابیٔ صحت کی بنیاد پر جب مجھے رہا کرکے اپنے گاؤں میں نظربند کردیا گیا تو اپنی اس نظربندی کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ کامریڈ تاج محمد ابڑو جولائی یا اگست کے مہینے میں سندھی ادبی سنگت کی ایک بڑی کانفرنس لاڑکانے میں بلا رہا ہے۔ تاج محمد ابڑو مرحوم اگرچہ خود نہیں لکھتا تھا، مگر وہ بہت پڑھا لکھا اور اعلیٰ پایہ کا منتظم راہنما تھا۔ پر ون یونٹ قائم ہونے کے بعد جو کچھ سیاسی سرگرمیاں جاری تھیں، وہ بھی ختم ہوکر رہ گئیں اور اکتوبر 1958ء میں ایوب خان کی فوجی آمریت قائم ہونے کے بعد تقریبًا سارے سیاسی اور نظریاتی کارکن منتشر ہوکر رہ گئے۔ جب میں دوبارہ جیل سے رہائی کے بعد اپنے گاؤں پہنچا اور تاج محمد ابڑو مجھ سے ملنے وہاں آیا تو اس نے بتایا کہ اب وہ بقاپور یونین کونسل کا ایک منتخب چیئرمین ہے۔ بی ڈی میمبروں سے اس کا معاہدہ ہوچکا ہے اور ذوالفقار علی بھٹو سے بھی ان کے قریبی تعلقات قائم ہیں۔ پھر 1964ء میں جب ایوب خان نے صدارتی الیکشن لڑا تو بقول تاج محمد ابڑو، ذوالفقار علی بھٹو بڑےتذبذب میں تھا کہ کس طرف جائے؟ مگر آخرکار اس کا جھکاؤ ایوب خان کی طرف ہوگیا اور اپنی جواں مردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس علاقے کے ووٹ ایوب خان کے حق میں ڈلواتا رہا۔ مگر تاج محمد ابڑو نے چوری چھپے بی ڈی ممبروں کے ووٹ اس کی مخالف امیدوار محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں ڈلوائے، جس کی وجہ سے حکمران ٹولہ کافی عرصہ تک اس کی طرف سے شاکی رہا۔
ایوب خان کے مارشل لا دور میں میری نظربندی 1959ء سے 1964ء تک تقریبًا پانچ سال تک رہی۔ اس دوران جمال ابڑو اور تاج محمد میرے پاس گاؤں میں آئے اور مجھے مشورہ دیا کہ میں ہندوستان اور چین کے سرحدی تنازعہ کے بارے میں کچھ ایسا معتدل قسم کا بیان دوں کہ حکومت مجھ پر سے نظر بندی کی پابندی ہٹائے، مگر میں نے ان کا یہ مشورہ ماننے سے صاف انکار کردیا، کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ محض مجھے آزادی کی خاطر یہ ایک سیاسی بددیانتی ہوگی اور جس مسئلے کی نوعیت کے بارے میں مجھے پوری طرح آگاہی نہ ہو، اس کے متعلق محض حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اس قسم کا کوئی بیان دینا میری نزدیک صرف موقعہ پرستی تھی۔ 1964ء میں جب مجھ پر سے نظربندی کی یہ پابندی ختم کی گئی تواس میں بھی تاج محمد کی کوششوں کو بڑا عمل دخل تھا، جس نے بھٹو کی منت سماجت کرکے یہ پابندی ہٹوائی تھی۔
ستمبر 1965ء میں ہندوستان اور پاکستان کی جنگ شروع ہوئی تو مجھے پھر گرفتار کرکے سی آئی اے نے لاڑکانہ کے تھانے مراد واہن میں رکھا۔ اس وقت حالات ایسے سخت تھے کہ کوئی بھی سیاسی کارکن ایک دوسرے سے ملنے جلنے اور آپس میں قریب آنے سے خوفزدہ تھا، مگر مولوی نذیر حسین اور تاج محمد دونوں مجھ سے ملنے تھانے میں آئے اور تسلی دی کہ وہ مجھے رہا کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پھر جب مارشل لا کے اسی دؤر میں ہمیں نظربند کیا گیا تو تاج محمد نے دوڑ دھوپ کرکے اور اس وقت لاڑکانہ کے ڈی سی عبدالسمیع سے لڑ جھگڑ کر ہمیں بی کلاس بھی دلوائی۔ پھر تین ماہ کی نظربندی کے بعد جیل سے رہا ہونے کے بعد کچھ عرسہ کیلئے میں نے اپنی تمام سرگرمیاں ترک کردیں۔ 1968ء میں جب لاڑکانہ میں لا کالج قائم ہوا تو میں یہاں سے ایل ایل بی کرنے کے بعد 1970ء میں وکیل برادری میں شامل ہوگیا۔ اپنے وکالت کے پیشہ میں برائے نام شاگرد الہٰی بخش کیہر کا رہا اور اسی کے ساتھ وکالت شروع کی، مگر اپنے طالب علمی کے دؤر میں ہمیشہ تاج محمد کے ساتھ رہا اور پھر وکالت کی رجسٹریشن ہوجانے کے بعد عبدالرزاق سومرو سے مل کر وکالت کرنے لگا۔ ایوب خان کے دؤر میں تاج محمد لاڑکانہ، میرپورخاص، سبی، کوئٹہ اور دادو وغیرہ میں بطور اے۔پی۔پی کام کرتا رہا اور اس دؤران پورے سندھ اور بلوچستان میں جوکہ ہمارا سیاسی حلقہ اثر تھا، دوستوں سے میل جول اور مراسم پیدا کرکے لاڑکانہ واپس آیا۔
تاج محمد مرحوم تقریبًا 1956ء سے شوگر کے موذی مرض میں مبتلا تھا، مگر اس کے حال چال سے کبھی بھی مایوسی اور بے زاری کا اظہار نہ ہوتا تھا۔ بحیثیت اے۔پی۔پی کئی ملزم اسے رشوت دینے کی کوشش کرتے تھے اور صرف ایسے موقعوں پر ہی میں نے اسے برہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپے سے باہر ہوتے دیکھا تھا۔ پھر 1972ء میں اسے سیشن جج مقرر کردیا گیا تو وہ سندھ میں مختلف مقامات پر تعینات رہا، مگر اس دوران بھی اس نے اپنے تمام پرانے دوستوں اور ساتھیوں سے دوستی کے مراسم اسی طرح قائم کیے رکھے۔ اس تمام عرصے میں وہ دنیا بھر کے سیاسی حالات کا مطالعہ کرکے ان پر غور وفکر کرتا رہا، جیسا کہ اکثر علم دوست اور دانشور لوگ تحریکوں سے الگ تھلگ ہوجانے کے بعد کرتے ہیں، مگر س کی سوچ اب انتہا پسندانہ بائیں بازو کی ہوکر رہ گئی تھی، جو صرف ایک خیالی انقلاب لانے کی طرف مائل رہتی ہے۔ تاہم اس کا ایک رویہ کہ جس نے اسے کبھی گمراہ ہونے نہ دیا، یہ تھا کہ وہ اپنے بائیں بازو کے تمام پرانے دوستوں کیلئے گہری محبت اور قربت کا احساس رکھتا تھا۔ اس نے ہم لوگوں سے اپنی دوستی کبھی ختم نہ کی اور آخری وقت تک اپنے ہوش وحواس قائم رکھے اور موت سے چند گھنٹے پہلے جب میں نے جناح ہسپتال میں اس سے آخری ملاقات کی تو مجھے یہ محسوس کرکے بیحد حیرت ہوئی کہ اب بھی وہ سیاسی کام کرنے کے سلسلے میں میری حوصلہ افزائی کر رہا تھا اور بجائے اس کے کہ مجھے اپنی ڈھارس بندھانے کا موقع دیتا، وہ مجھے اپنے سیاسی مؤقف پر ڈٹے رہنے کی تلقین کرتا رہا۔
10 مارچ 1986ء کو اس نے اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ 9 مارچ کو 5، 6 بجے شام اس سے ملا تو وہ سرہانے کے سہارے بیٹھا تھا، مگر اس کی زبان بند ہوچکی تھی، اس لئے اشارے سے اس نے مجھے ڈان اخبار، جو وہاں پڑا تھا، اٹھا کر دینے کیلئے کہا، جس کے اندر کے ایک صفحے پر میری بڑی تصویر انجمن ترقی پسند مصنفین کی پچاس سالہ گولڈن کانفرنس کے سلسلے میں چھپی ہوئی تھی، بڑی مسرت سے مجھے میری یہ تصویر دکھائی۔ مٹھیاں بھینچتے ہوئے اس نے مجھے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشاروں ہی اشاروں میں سلام کیا، گویا کہہ رہا ہو کہ:
کامریڈ تاج محمد سے اپنی چالیس سالہ دوستی اور کامریڈشپ کے دؤر میں، میں نے ایک بار بھی یہ محسوس نہ کیا کہ اس نے کبھی ہمت ہاری ہو، بلکہ اپنی ساری زندگی وہ ایک ہنس مکھ اور مصیبتوں پر بھی ہمیشہ مسکراتا رہنے والا پُر عزم انسان تھا۔ اس کے گھر کے دروازے تمام دوستوں کیلئے ہمیشہ کھلے رہتے تھے۔ کھانے پینے کے معاملے میں فراخدل تھا اور دوستوں کی مالی مدد کرنے میں بھی پیچھے نہ رہتا تھا، بلکہ ضرورتمند دوستوں اور کارکنوں کی مدد کرنے کیلئے وہ کسی کھاتے پیتے دوست سے ادھار لے کر بھی وقت گذارنے کیلئے ان کی مدد کرتا۔ کیونکہ وہ یاروں کا یار اور کامریڈوں کا ایک وفادار ساتھی تھا اور تاج محمد کی اس صلح کن طبیعت کی وجہ سے اس کی ججی والے زمانے میں کئی غلط کار لوگوں نے بعض اوقات ناجائز فائدہ بھی اٹھایا، جس کی وجہ سے اس کی شہرت کو نقصان پہنچا، مگر ذاتی طور پر مجھے یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ مرنے کے بعد وہ اپنے لواحقین کیلئے کوئی ترکہ یا ناجائز جائیدار چھوڑ کر نہیں گیا اور جب سے لاڑکانہ میں تاج محمد کی شام والی محفلیں ختم ہوئی ہیں، میں وہاں اور کسی دوست کی طرف مائل نہیں ہوسکا، کیونکہ لاڑکانہ میں تاج محمد کی محفلوں کے بعد کوئی ایسی محفل باقی نہیں رہی اور نہ ہی میرا دل مانتا ہے کہ اس کی غیر موجودگی میں اور کسی کے پاس جاکر اپنے دکھ سکھ کا اظہار کروں، کیونکہ تاج محمد کے بعد اب یہاں کوئی بھی دوست یا وکیل اس جیسا فراخ دل اور بلند کردار نہیں رہا۔
(روزنامہ برسات، عوامی آواز، جاگو، عبرت، جنگ، نوائه وقت، ہلال پاکستان، سروان، آفتاب، کتاب: تاریخ بولتی ہے، کتاب: سندھ کے چند انقلابی دانشور اور عوامی راہنما)