سندھ کی سیاسی اور سماجی شخصیت تاج محمد ابڑو / تحریر: سید عنایت وارث
آپ غریب نواز اور مخلص آدمی تھے۔ ہاری، مزدور، غریب عوام میں وہ خاصی دلچسپی لیتے۔ شروع ہی سے ان کا تعلق ہاری، مزدور اور سوشلسٹ خیالوں کے لوگوں سے رہا۔ آپ پر بہت گہرا اثر جمال الدین بخاری کا ہوتا۔ وکالت پاس کرنے کے بعد لاڑکانہ میں وکالت شروع کی اور خاصہ عرصہ سرکاری وکیل بھی رہے۔ آپ کی لائبریری میں قانون کی کتابوں کے علاوہ کمیونزم، سوشلزم، کیپیٹلزم، اسلام اور ادب کے ذخیرے بھی ہیں، جس میں دنیا کی نایاب اور انمول کتابیں موجود ہیں، جن سے نوجوان کافی فائدہ اٹھاتے ہیں۔
آپ کی دوستی کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ لاڑکانہ میں آپ کی اوطاق غریبوں، عام لوگوں میں مہمان سرائے کیلئے استعمال ہوتی اور یہ اوطاق سرداروں، نوابوں، پیروں، امیروں، آفیسروں اور مختلف سیاسی لیڈروں کا مرکز تھی۔ تاج محمد ابڑو ایک ہمدرد انسان تھے۔ وہ غریبوں، یتیموں، بیواؤں کے کاموں میں خاصی دلچسپی لیتے اور بغیر لالچ کے ان کے کام کرتے، یہاں تک کہ اپنی وکالت کی بھی پرواہ اکثر نہیں کرتے۔ مرحوم کی دوستی غریب لوگوں میں بھی تھی اور ان سے ملنے میں کبھی غرور یا تکبر نہیں کرتے، بلکہ ان کو اپنا دوست سمجھتے۔ یہی مرحوم کی بڑی خاصیت تھی۔ مرحوم تاج محمد ابڑو کی اوطاق پر شام کو بڑی محفل لگتی، جس میں مختلف سیاسی خیالوں کے لوگ جمع ہوتے، جو تقریبًا روز حاضری بھرتے تھے، جن میں جمال الدین بخاری، مولوی نذیر احمد، ایاز قادری، الہٰی بخش کیہر، عبدالرزاق سومرو، بخش شاہ، دوست محمد ابڑو، شمس الدین ابڑو، عبدالحمید ابڑو، فتح محمد سومرو، قربان علی بگٹی، غلام قادر بروہی اور کافی سیاست داں، ادیب، آفیسر اور زمیندار شامل ہوتے تھے۔ٍ
تاج محمد ابڑو کو ادب سے بے پناہ چاہت تھی۔ آپ نے 1954ء میں لاڑکانہ میں سندھی ادبی سنگت کی بنیاد رکھی۔ سندھی زبان اور سندھی ادب کیلئے بہت کوششیں کیں۔ آپ اکثر ہر میٹنگ میں حاضر رہتے۔ آپ کی ایک ہمہ گیر شخصیت تھی انجمن ترقی اردو لاڑکانہ شاخ کے بانی اور سرگرم کارکن رہے اور سندھی اور اردو ادیبوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور یگانگت پیدا کرنا ان کا نصب العین رہا۔ یہی وجہ ہے کہ انجمن ترقی اردو کی عمارت میں جو لائبریری قائم کی گئی، اس کا نام شاہ لطیف لائبریری رکھا گیا اور اس سے قبل اس کی بنیاد اس کے اپنے مکان کے قریب تھی۔ آپ کو ادب کے میدان میں بہت اچھے دوست ملے، جن میں محمد ابراہیم جویو، شیخ ایاز، جمال ابڑو، شمشیر الحیدری، پروفیسر غلام مصطفیٰ شاہ، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی، رشید بھٹی، اے کے بروہی، پروفیسر ایاز قادری، ڈاکٹر تنویر عباسی، پیر حسام الدین شاہ راشدی، پیر علی محمد راشدی، عبدالحمید سندھی، قاضی فیض محمد، سوبھو گیانچندانی، برکت علی آزاد، نسیم کھرل اور کافی ادیب شامل ہیں۔
لاڑکانہ میں سر شاہنواز بھٹو لائبریری کا بنیاد بھی مرحوم ہی نے رکھوایا، جو لاڑکانہ میں ایک واحد قسم کی لائبریری ہے، جہاں سے لاکھوں کی تعداد میں شاگرد، ادیب، دانشور اور عام پڑھنے والے لوگ فیضیاب ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کافی غریب شاگردوں کا خرچ برداشت کرتے تھے۔ پڑھا کر ان کو روزگار سے لگاتے تھے۔ مرحوم تاج محمد ابڑو نے صرف قوم کی زبانی ہی خدمت نہ کی، بلکہ عملی طور پر بقاپور یونین کونسل جو لاڑکانہ شہر سے ملحق علاقہ ہے، وہاں الیکشن میں اکثریت سے جیت کر چیئرمین بھی رہے اور دل وجان سے لوگوں کی خدمت کی۔ بہت سے آپس کے جھگڑوں کو نمٹایا اور لوگوں میں یگانگت پیدا کی۔ وہاں کے لوگ اب تک ان کے مرہونِ منت ہیں اور اچھے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔
وہ شروع ہی سے سیاست میں سرگرم رہے۔ مختلف سیاسی پارٹیوں میں کام کیا، جن میں سندھ ہاری کمیٹی، نیب اور پیپلز پارٹی قابل ذکر ہیں۔ آپ پی پی پی کی بنیاد رکھنے والوں میں سے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو کامیاب بنانے میں مرحوم نے بڑا پارٹ ادا کیا۔ سیاسی میدان میں مختلف قوّتوں میں آپ کو بیشمار دوست ملے، جن میں ذوالفقار علی بھٹو، حیدر بخش جتوئی، رسول بخش پلیجو، فاضل راہو، حاکم علی زرداری، جی۔ایم سید، ممتاز علی بھٹو، جام ساقی، میر رسول بخش تالپر، میر علی احمد تالپر، نواب نبی بخش بھٹو، سردار امین کھوسو، خان بہادر محمد ایوب کھوڑو، قاضی فضل اللہ، میر غوث بخش بزنجو، علی محمد عباسی اور بہت سے دوست قابل ذکر ہیں۔
تاج محمد ابڑو مرحوم 1972ء میں سیشن جج کے عہدے پر فائز ہوئے، جو رٹائرمنٹ تک ایمانداری سے نبھایا۔ 1985ء میں رٹائر کیا۔ رٹائرمنٹ کے بعد لاڑکانہ میں اپنی آبائی روایت برقرار رکھتے ہوئے اوطاق کو پھر سے آباد کیا۔ آخرکار یہ انمول ہیرے جیسا آدمی، غریبوں کا دوست، باشعور سیاستدان اور سماجی کارکن تاریخ 10 مارچ 1986ء کو دل کا دورہ پڑنے پر اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے۔ آپ کو اپنے آبائی قبرستان لاڑکانہ میں سپردِ خاک کیا گیا۔
(روزنامہ جنگ)