تھاروشاہ کا فوجی
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں (اقبال)
اللہ تبارک و تعالیٰ کا اصولِ ازلی ہے کہ جس خطے یا علاقے یا انسانوں کے گروہ سے چاہت اور محبت کا اظہار فرمایا تو وہاں کے لوگوں میں سے ہی ان لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی اپنا پیارا بندہ مقرر فرما دیا جاتا ہے۔انسان کے بنائے جانے کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ انسان ، انسانیت کے درد سے واقف ہو کر اس درد کا مرہم بنے۔بابو محمد اسلم خانزادہ المعروف بابو فوجی بھی میری نظر میں اللہ تعالیٰ کے ان برگزیدہ بندوں میں سے ایک ہے جو تھاروشاہ کے عوام کے لیے تحفۃ اللہ سے کم نہیں، بابو فوجی کا لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے شب و روز کوشاں رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ تھارو شاہ کے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کے خاص کرم اور عنایات کی بارش کا لامتناہی سلسلہ جاری و ساری ہے۔
راقم سے بابو فوجی کی ملاقات کا ذریعہ بننے والے پروفیسر قاضی علی رضا سہتو صاحب نے جب کنڈیارو کالج میں ان کے اوصاف بیان کیے اور یہ بھی بتایا کہ انہوں نے بابو فوجی کی خدمات کے موضوع پر سندھی زبان میں ایک مضمون بھی تحریر کیا ہے تو بابو فوجی سے ملنے اور مذکورہ مضمون پڑھنے کا مشتاق ہوا۔انہی دنوں کالج میگزین "ساہتی" بھی شائع ہونے جارہا تھا تو سوچا کہ کیوں نہ اس مضمون کو اردو میں منتقل کرکے میگزین کی زینت بنایا جائے کہ بابو فوجی ساہتی پرگنے کی مایہ ناز شخصیت ہیں لہٰذہ قاضی صاحب کی اجازت سے ایسا کرنے میں کامیاب ہوا۔
بابو فوجی سے جب پہلی ملاقات ہوئی تو دورانِ گفتگو ان کی تھاروشاہ کے عوام کے لیے کی جانے والی خدمات پر عش عش کر اٹھا، راقم کو ان کے کاموں کی فہرست اور تفصیلات نے انکا گرویدہ بنا دیا اور ان کے ان تمام کاموں پر رشک آنے لگا اور سوچنے پر مجبور ہوا کہ کاش ہم میں بھی ایسا جذبہ بیدار ہو کہ ہم بھی خدمت الناس کے اہم فریضے کو اپنا مقصدِ حیات بنائیں۔
افواجِ پاکستان میں اپنی خدمات تن دہی اور چابکدستی سے انجام دینے کے علاوہ اپنی مدتِ ملازمت انتہائی احسن طریقے سے مکمل کرنے کے بعد جب اپنے آبائی گاؤں تھارو شاہ پہنچے تو یہاں کے روزمرہ مسائل نے انہیں خدمت الناس کے عظیم اور پیغمبرانہ مقصد پر مجبور کیا کہ وہ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد عام سے سرکاری ملازمین کی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کے بجائے لوگوں کی پریشانیوں میں ان کا ہاتھ بٹائیں اور ان کے دکھ درد کو حل کرنے کا سودا اٹھائیں ، جسے انہوں نے واقعی اس حد تک پہنچا دیا کہ دوست تو دوست دشمن بھی انگشت بدندان ہیں کہ ایک منحنی سا شخص اتنے سارے کام کس طرح انجام دے رہا ہے۔
بابو فوجی جہاں تھاروشاہ کے لوگوں کے معمولی سے معمولی اور اعلیٰ سے اعلیٰ امور کے لیے بذاتِ خود سرگرداں رہتے ہیں وہیں وہ اپنے دوست و احباب سے بھی لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے استدعا کرنےمیں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اور حدۃ الامکان کوششوں سے ان مسائل کو حل کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ شہریوں کے مسائل جیسا کہ عمومی سطح کے معاملات واپڈا کے مسائل، گیس کے مسائل، شناختی کارڈ وغیرہ اور دیگر سرکاری دفاتر کے مسائل کو حل کرنے میں ہمہ وقت مستعد و تیار بابو فوجی جیسی شخصیت ساہتی پرگنے میں کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی۔
اگرچہ بابو فوجی کے لیے کہنے یا لکھنے کے لیے تو بہت کچھ ہے تاہم صفحات کی کلت نے مجبور کیا کہ اپنا مضمون اسی حد تک ضابطہء تحریر میں لا کر اجازت چاہوں۔ البتہ اتنا ضرور کہنے کی جسارت چاہوں گا کہ بابو فوجی کے ساتھ ساتھ تھارو شاہ کے شہریوں کو بھی خدمتِ خلق میں ان کے شانہ بشانہ کام کرنا چاہیے اور نوجوانوں کو بالخصوص ان تمام امور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چایے تاکہ مسائل کے حل اور تھاروشاہ کی ترقی کا یہ سلسلہ ہمیشہ جاری و ساری رہے۔
دعا گو ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ بابو فوجی کو اس شب و روز کی ان تھک محنت کا اجرِ عظیم عطا فرمائے اور انہیں عمرِ دراز عطا فرمائے۔
آمین۔
پروفیسرمرزا خوشی محمد جاؔویدمحراب پور