تھاروشاہ کا عبدالستار ایدھی
آج کے اس مصروف دور میں جو کہ نفسا نفسی کا دور ہے جس میں لوگ پیسے کے پیچھے دیوانہ وار بھاگ رہے ہیں اور مال کمانے کی تگ ودو میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے میں مصروفِ کار ہیں، جس میں ہوش و حواس کی خبر ہے نہ جائز و ناجائز کا پتا نہ کسی عزیز رشتے دار کا خیال اور نہ ہی ماں باپ اور بہن بھائیوں کا کوئی قیاس ، نہ ہی وہ معاشرے کو دیکھتے ہیں اور نہ ہی خدمتِ خلق کے بارے میں سوچتے ہیں غرض انہیں اپنی ذات کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا ہے۔
آج جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے پاس اپنے لیے ہی وقت نہیں ہے تو ہم محمد اسلم عرف بابو فوجی کو دیکھتے ہیں جو فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد اپنے شہر تھاروشاہ میں بلا امتیازِ رنگ و نسل شب و روز لوگوں کے مسائل حل کرنے میں مصروف ہے نہ اس کے پاس کوئی عہدہ ہے اور نہ ہی وہ کوئی بڑا سرمایہ دار ہے لیکن اپنی بساط سے نڑھ کر چاہے بلدیہ کا کوئی مسئلہ ہو، واپڈا کے ستائے لوگوں کے مسائل ہوں ، مچھر مار اسپرے کرانا ہو، فرش بندی کا مسئلہ ہو، ڈی سی آفس کا کوئی مسئلہ ہو ، اے سی آفس کا کام ہو یا بے نظیر کارڈ کے مسائل، شناختی کارڈ بنوانے کا مسئلہ ہو یا راشن کی تقسیم ، سیلاب متاثرین کے ٹھہرانے کا یا انہیں کھانا پینا مہیا کرنے کا مسئلہ غرض جدھر بھی دیکھتے ہیں بابو فوجی کو ہی پاتے ہیں۔ اور یہ ان لوگوں میں سے ہے جو کہ شکوہ شکایت اور وسائل کی کمی کا رونا نہیں روتے بلکہ اس شعر کی مثال کہ:
شکوہِ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
بابو فوجی نے نہ کبھی وسائل کا رونا رویا اور نہ ہی عہدے کی طلب کی غرض یہ کہ لوگ جن کو کسی بھی ڈیپارٹمنٹ میں کوئی مسئلہ درپیش ہو تو متعلقہ محکمے سے رجوع کرنے کے بجائے بابو فوجی کو فون کر کے معلومات لیتے ہیں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آج لوگ وسائل اور عہدہ ہوتے ہوئے بھی خدمتِ خلق سے آنکھیں بند کرکے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ یہ شخص کونسی مٹی کا بنا ہوا ہے کہ رات دن خدمتِ خلق میں مصروف ہے اور کسی سے بھی صلہ یا بدلہ بھی نہیں چاہتا اور میں لوگوں کو بھی دیکھتا ہوں جو بجائے قدر کرنے کے گھٹیا الزامات لگاتے ہیں۔ لیکن یہ شخص ان سب کی پرواہ کیے بغیر اپنی دھن میں لگا ہوا ہے۔
اگر میں یہ کہوں کہ بابو فوجی تھاروشاہ کا عبدالستار ایدھی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
اللہ پاک اس کے حوصلے اور صحت میں اضافہ فرمائے تاکہ اس شہر کی خدمت اسی سرگرمی سے کرتا رہے۔
محمد صدیق خانزادہ/ تھاروشاہ