شخصيتون ۽ خاڪا

ٺارو شاه جو بابوُ صاحب

نئون ڪتاب ”ٺارو شاهه جو بابو صاحب“ اوهان اڳيان پيش ڪري رهيا آهيون. هي ڪتاب ٺاروشاه جي هڪ شخص جي زندگيءَ بابت مختصر معاشي، سماجي يا سياسي تفصيل آهي، جيڪا هڪ شخص جي زندگيءَ جي مشاهدن تي مبني آهي. ڀلو امڪان آهي ته ان شخص جي ڪنهن سٺي پهلوءَ تي ڪو ٻيو ريس ڪري ۽ سماجي طور هڪ ڀلائيءَ جو جز سنوارجي وڃي.
Title Cover of book ٺارو شاه جو بابوُ صاحب

خدمتِ خلق کا روشن ستارہ بابو اسلم فوجی خانزادہ

خدمتِ خلق کا روشن ستارہ بابو اسلم فوجی خانزادہ

ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
شاعرِ مشرق علامہ اقبال ؒ کے اس شعر کی حقیقی جھلک کے حامل تھارو شاہ شہر کے ایک مختصر الوجود شخص جن کے حوصلے اور حب الوطنی اور خدمتِ خلق کے جذبے چٹانوں سے مضبوط، جن کی سوچ ہمیشہ دوسروں کی خدمت میں پنہاں ، وہ ہیں ہمارے بابو محمد اسلم فوجی خانزادہ جو بچوں کے پسندیدہ بابو چاچا ہیں۔بابو فوجی کی ولادت جنوری کی پہلی تاریخ 1962ء کو خانزادہ برادری کے ایک معتبر خاندان میں ہوئی ۔ ان کے والد دلمیر خان ایک نیک دل معتبر انسان رہے ہیں۔ان کے چچا باغی عباس جو کسی تعارف کے مضتاج نہیں، وہ ایم۔آر۔ڈی۔ تحریک سے منسلک تھے جس میں وہ ہیرو کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ بھی فلاحی کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ بابو صاحب کا بچپن انہی کی زیرِ نگرانی گزرا۔ انہوں نے بابو صاحب کی ذہنی تربیت کی اور ان میں ایک نڈر، بے باک، باہمت اور دردمند شخص کو ابھارا۔
اپنے نام کے مصداق بابو فوجی، افواجِ پاکستان میں تقریباً 18 سال اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ فوج سے ریٹائیرمنٹ کے بعد بھی ان کے معمولات میں کوئی فرق نہ آیا۔
بقول، شاعر:
زندگی شمع کی صور ت ہو خدایا میری
انہوں نے اپنی فوج کی ملازمت کے بعد اپنی زندگی کو روشن شمع کی مانند بنا لیا جس کا مقصد دوسروں کی زندگی میں اجالا کرنا ہے۔ وہ اپنے اسی مقصد کی تکمیل کے لیے دن رات کے فرق کے بغیر ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ شہر تھاروشاہ اور شہر کے باہر کسی شخص کو کوئی مشکل درپیش ہو تو اس کے تدارک کے لیے سب سے پہلا نام جو اس لے ذہن میں آتا ہے وہ ہے بابو فوجی، ان کی خدمات کا سلسلہ لامتناہی ہے۔ کہیں بجلی کا مسئلہ ہو یا لو وولٹیج کا، گیس کا معاملہ ہو یا گیس کے کم پریشر کا یا بل جمع کرانے کا معاملہ ہو، کسی کے شناختی کارڈ بنوانے کا معاملہ ہو بابو فوجی ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں۔ کسی کے گھریلو مسائل، گھریلو ناچاقی ہو جسے شیئر کرنا بھی مشکل ہو۔ وہ بابو صاحب کو بتائےجاتے ہیں ایسے مسائل کو حل کرنے مین بابو صاحب کا کوئی ثانی نہیں۔ شہر تھاروشاہ میں یا اس کے ارد گرد گندے پانی کے نکاس کا مسئلہ ہو ، گلیوں کی صفائی کا مسئلہ ہو، شہر کے لوگ بابو فوجی کو ہی یاد کرتے ہیں۔ لوڈشیڈنگ کا شیڈیول، نئے ٹرانسفارمر کی تبدیلی ہو وہ اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے ان کی مدد کےلیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور جب اس مسئلے کو حل نہ کر لیں سکون سے نہیں بیٹھتے۔
شہر میں کسی ذات، رنگ و نسل کی غریب لڑکیوں کی شادی میں کھانے ، جہیز کا معاملہ ہو، رمضان شریف میں غریب خاندانوں کے لیے راشن مہیا کرنا ہو، غریب خاندانوں میں عید کی خوشیاں مہیا کرنا ہو بابو صاحب انتہائی رازدارانہ طریقے سے ان غریب خاندانوں کی امداد کرتے ہیں ۔ قدرتی آفات آنے کی صورت میں شہر اور شہر کے باہر مصروفِ عمل نظر آتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر کم و بیش 60 سال ہے لیکن ان کے حوصلے آج بھی جوان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موت سب کو آنی ہے وہ برحق ہے۔ اور جب میری زندگی کا پیمانہ لبریز ہوجائے گا تو میں بھی خوشی خوشی اس کو گلے لگالوں گا لیکن جب تک میری زندگی ہے میں لوگوں کی خدمت کرتا رہوں گا۔ وہ کہتے ہیں کہ دکھی انسانیت کی خدمت کرنا اور ان کو خوشی دینا میرے لیے عبادتِ الٰہی کا درجہ رکھتی ہے۔
میں اپنے بابو چاچا کے بارے میں جتنا بھی لکھوں پھر بھی انکے اوصاف لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ ان کی ذات اچھائی اور نیکی کا وہ سورج ہے جس کی کرنیں ہر ذات، رنگ و نسل، برادری، مذہب سب پر یکساں برستی ہیں۔ وہ نوجوان نسل کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ انہیں عمرِ دراز اور صحتِ کاملہ عطا فرمائے۔
وہ ہمیشہ خدمتِ خلق میں مصروفِ عمل رہیں۔ آمین۔

رضوانہ خانزادہ لیکچرر اردو
سید نور محمد شاہ ڈگری کالج تھاروشاہ