"انسانیت کا نوحہ"
یہ سمجھ کہ نکلے تھے
تیرے شہر سے جاناں
کہ بچ جائیں گے
گلوں کا قتلِ عام
چار سُوہے
قسم سے نہ بچ پائیں گے!
دلِ نہ مراد مانتا نہیں
سچ کا انجام جانتا نہیں
رہبر نہ کوئی رہنما
منزل کا نہ کوئی نشاں
درد ہے کہ گھٹتا نہیں
سفر ہے کہ کٹتا نہیں
گرتے سنبھلتے اس آس میں
چلتے رہے کہ توآئے گی
گھٹا بن کر چھائے گی
صدیوں کا یہ سپنا
کوئی تو ہوگا اپنا
جو تھام لے گا
درد کی دے گا دوا
اور قبر سی گھٹن میں
دے گا ہوا
کیا کیا نہ دیکھا اس زمین پہ
کیا کیا نہ جھیلا اس زمین پہ
نائن الیون اور سونامی
آگ میں جلتا عراقی
پھر بھی نہ کوئی ہے جنما
ماؤ اور موسیٰ جیسا
بھٹائی اور بلھے جیسا
کوئی تو سارتر کا
جلوہ دکھادے
انسانیت پر احسان کردے
کتنی صلیبیں ہیں سجی
عیسیٰ اور نہ کوئی علی
کوئی تو مٹی کا مان رکھ دے
اسامہ اور بش سے بچائے۔
مگر جاناں یہ ہونہ سکا
ظلم کی دیواروں سے
لہومٹ نہ سکا
اب کیا کریں اس جنم کا؟
اور اگلے جنم کے صنم کو
کچھ بھی نہ ہم دے سکیں گے
کچھ بھی نہ ہم دے سکیں گے۔