نظم
ہر گلی میں پھر رہے ہیں اغیار تیرے شہر میں
کیوں نہیں اس شہر کے شرفاکو ہے شرم و حیا
ہوتی ہے بے عزتی صد بار تیرے شہر میں
کوئی بھی اس شہر میں سچ بولنے والا نہیں
جھوٹ کی ہے طرف بھرمار تیرے شہر میں
چاہیے کوئی مجھے بھی غم بانٹنے کے واسطے
پر کوئی ملتا نہیں غمخوار تیرے شہر میں
دل کو آخر موہ ہی لیتے ہیں یہ شیریں زباں
پر لگی ہے حادثوں کی بھرمار تیرے شہر میں
آدمی منصور جیسے سے نہ پالا ہے پڑا
ہر گلی میں پر لگے تھے دار تیرے شہر میں
تیری مئہ میں وہ نہیں اگلا نشا پیر مغاں
شکوہ کرتے ہیں سبھی میخار تیرے شہر میں
نیک نامی کی مثال اک بھی نہیں ملتی یہاں
بدسے بدتر رہتے ہیں بدکار تیرے شہر میں
موسم گرما کی بے مہری اور دوپہر کا سماں
اور نہ کوئی سایہء دیوار تیرے شہر میں
شہر کی حالات نئی ممتاز سے آکر پوچھ لو
کوئی بھی رستہ نہیں ہموار تیرے شہر میں
***