پیکر
نازنین، ناز آفریں و نازک کمر، نازک بدن
(ساجد)
آدمی پیکر خطا ہی نہیں
آدمی مظہر خدا بھی ہے
(حضور سلیم)
محبت، عزیمت، شجاعت کے پیکر
الہی' ہمیں ایسے انسان عطا کر
(اثر مہبائی)
اغیار بڑے شوق سے پوجیں ترا پیکر
مجھ کو تو ترا حسن تخیل ہی بہت عزیز
(قمر)
اٹھی تھی بحر حسن کی اک موج بے قرار
فطرت نے اس کو پیکر انسان بنا دیا
(اصغر گونڈوی)
دغا دے جاتے ہیں اکثر خلوص و مہر کے پیکر
یہ دنیا ہے یہاں پر ایسے باتیں ہو ہی جاتی ہیں
(فراز صدیقی)
اے شاد مجھ کو غم سے محبت سی ہوگئی
اک پیکر جمیل کو غم خوار دیکھ کر
(نریش کمار)
چند بوندیں ہی نظر آئیں سر شاخ مثردہ پے
آرزو دل کی کبھی پھول کا پیکر نہ ہوتی
(خلیل رامپوری)
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
(غالب)
ہائے وہ ستمگر نفس ہائے وہ پیکر ہوس
جس نے سمجھ لیا آشیاں کو بازار جنس و ہوس
(شکیل بدایونی)
ہم نے ہنس ہنس کے تری بزم میں اے پیکر ناز
کتنی آہوں کو چھپایا ہے تجھے کیا معلوم
(اختر شیرانی)
اپنے شہید ناز کو گلہائے زخم سے
اک پیکر بہار بنا کر چلے گئے
(اثر لکھنوی)
یہ حسن کہ جس سے تیرا پیکر ہے عبارت
برسوں مرے تخیل کے سانچے میں ڈھلا ہے
(احسن احمد اشک)
ڈھلتا گیایادوں کے شفق میں ترا پیکر
احساس نے جب حسن کی توصیف رقم کی
(احمد سعدی)
آشکار ہے یہ اپنی قوت تسخیر سے
گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی
(اقبال)
خبر کیا تھی بنیں گے پیکر غم
بڑے خوش تھے تمہیں اپنا بنا کر
(مبارک امروز)
تابش کسی کے پیکر رنگیں کی چاہ میں
دل کا چراغ ہم نے جلایا تمام رات
(تابش)
یاد آئے ترے پیکر کے خطوط
اپنی کوتاہی فن یاد آئی
(قتیل شفائی)
گذشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ پر چھائیاں بھی جل جائیں
نبھے کیونکہ مرا اور اس پری پیکر کا یارانہ
وہ بے پردا میں سودائی وہ سنگین اداس میں دیوانہ
(بہادر شاہ ظفر)