نیند
ہمیں نیند آگئی انور کہ جب منزل قریب آگئی
چاند مدھم ہے آسمان چپ ہے
نیند کی گود میں جہاں چپ ہے
یاس کی نیند سلانا ہی اگر تھا منظور
میری ناہید کی راتوں کو جگایا کیوں تھا
پھر نہ انتظار میں نیند آئے رات بھر
آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں
محبت نے کیا کیا پہلے تو رونا دل کا تھا
ان تو نیند سے بھی ہوگئے محروم ہم
دل کو سکون مل گیا درد کو نیند آگئی
راہ طلب میں آگیا کون سا آستاں نہ پوچھ
ان سرمگیں آنکھوں میں نیند آہی گئی آخر
تم سن چکے افسانہ میں کہہ چکا افسانہ
کتنی تسکین ہے وابستہ ترے نام کے ساتھ
نیند کاٹوں پہ آجاتی ہے آرام کے ساتھ
قصہ عہد جوانی پوچھتے ہو کیا عزیز
آگیا تھا اتفاقا نیند کا جھونکا مجھے
ترا شور صبح محشر نہ اسے جگا سکے گا
ترا ذکر کرتے کرتے جسے نیند آگئی ہو
تمہیں بھی نیند آئے گی ہم بھی سو ہی جائینگے
ابھی کچھ بیقراری ہے ستاروں تم تو سو جاو
رہا یوں بھی نامکمل غم عشق کا فسانہ
کبھی مجھ کو نیند آئی کبھی سوگیا زمانہ
موت سے زیست کا شعلہ کہاں ہے عدم
صرف احساس کو اک نیند سی آجاتی ہے
نہ سوئے رات بھر آخر نہ آنا تھا نہ نیند آئی
ادھر آکاش پر تارے ادھر ہم ہجر کے مارے
ہر آہٹ پہ سوچا ہے کہ شاید اب وہ آجائیں
اسی دھوکے میں ابتک غم کے ماروں کو نیند آگئی
جلوے بھی محو خواب، نگاہیں بھی محو خواب
دونوں کی نیند ٹوٹی ہے دل کی پکار سے
وہ روبرو ہیں آج مرے مدتوں کے بعد
کہہ دے یہ کوئی نیند سے دشمن نہ بنے آج
میں ڈر رہا تھا سوتے نہ پائیں کہیں مجھے
وعدے کی رات نیند نہ آئی تمام شب
ہوا کا رخ بدل چکے تھے بھنور کی زد سے نکل چکے تھے
کہاں امیدوں کو نیند آئی کہاں سہاروں نے ساتھ چھوڑا
اکیلا صبح تک تڑپا مریض شام تنہائی
نہ غم آئے نہ نیند آئی نہ چین آیا نہ موت آئی
شب نالہ کرتے رہے ہم کوئے یار میں
ایسا نہ ہو کہ نیند میں اسکی خلل پڑے
دوستو تم پہ بھی گذرا ہے کبھی یہ عالم
نیند آئی نہیں اور خواب نظر آتے ہیں
نیند بھی موت بن گئی ہے عدم
بے وفا رات بھر نہیں آئی
مجھ کو شکوہ ہے انہی آنکھوں سے
تم نہ آئے تو نیند کیوں آئی
***