آخری الفاظ
ہم غریبوں کو بھی کیا تحفے دیئے جاتے ہیں
تم ایسے کون سے خدا ہو کہ عمر بھر تم سے
امید بھی نہ رکھوں نا امید بھی نہ رہوں
زندگی ہے کہ سلگتی ہوئی سگریٹ کی طرح
دم بدم راکھ کی صورت میں ڈھلی جاتی ہے
الفت کی نئی منزل کو چلا تو بانہیں ڈال کر بانہوں میں
دل توڑنے والے دیکھ کے چل ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں
ایک میں ہوں ایک میری بیکسی کی شام ہے
اب تجھ بن زندگی جینے کا ایک الزام ہے
وہ جام ہوں کہ خون تمنا سے بھر چکا
یہ میرا ظرف ہے کہ چمکتا نہیں ہوں میں
***