ماھوار امرتا ڪارنر

ماھوار ”امرتا“ ميگزين شمارو نمبر 134 نومبر 2023

ھن شماري ۾ ولي رام ولڀ جي وڇوڙي تي مختلف عالمن، اديبن ۽ ليکڪن جا لکيل مضمون ۽ تاثر شامل آھن، ان کانسواءِ ولي رام ولڀ جو انٽرويو پڻ شامل آھي. ڦلواڙي ۾ ديوِي ناگراڻي، روبينہ ابڙو، سائينداد ساند، آخوند عباس، ناشاد شوڪت شنباڻي، فدا جوڻيجو، حُميرہ نُور، عنايت تبسم، آزاد خاصخيلي، عبدالرحيم ’عبد‘ ڪنڀر، فرهاد جروار، مونس رضوي، وسيم حيدر کوسو ۽ ليلا رام جي شاعري شامل ڪيل آھي. ان کانسواءِ ڪھاڻيون، فيچر، اڪبر سومري جي ناول جو چوٿون باب، ھوش درد جو تنقيدي مضمون، ڪتابن تي تبصرا ۽ ٻيو مواد شامل آھي.

  • 4.5/5.0
  • 18
  • 4
  • آخري ڀيرو اپڊيٽ ٿيو:
  • امرتا سٿ
  • ڇاپو پھريون
Title Cover of book ماھوار ”امرتا“ ميگزين شمارو نمبر 134 نومبر 2023

سائين ولي رام ولڀ..!: حُسين صمداني

1980ء تا 2023ء = 42 برس ، تقریباً اتنی ہی پرانی ہماری دوستی و محبت کا رشتہ ہے ۔ ہمارے سینئر لکھاری دوست اور دانشور: ائیں ولی رام ولبھ سے.
مجهے وہ پہلی ملاقات جو شمس چیمبر میں جب ذیشان ساحل ، اجمل کمال اور میں ان سے ملنے گئے ۔ پھر کتنے موسم ، کتنے برس بیتے چلے گئے ۔ یہ فوٹو جیساکہ اس پر لکھا ہے جنوری 2021ء میرے گهر کی بیٹھک میں بنائی گئی تھی. ان دنوں سائیں نے آؤٹ ڈور میٹنگز بے حد کم کردی تھیں جس کی بنیادی وجہ صحت کے مسائل تھے ۔ ان ہی دنوں میں سے ایک صبح ڈاکٹر کملیش کا فون آیا کہ بابا سائیں آپ سے ملنے آنا چاہتے ہیں ۔ میں بہت خوش ہوا ، سر آنکھوں پر ضرور آئیں ۔ مجهے بتلایا کہ یہ پروگرام اچانک بن گیا چونکہ سائیں میرے گهر سے قریب کچھ فاصلے پر واقع لیبارٹری میں چند ٹیسٹ کے لیے آئے ہوئے تھے ۔
ملاقاتوں کے درمیان آنے والے مختصر یا زیادہ لمبے وقفوں کے باوجود برس ہا برس سے ہماری ایک دوسرے سے ملاقاتیں اور خلوص ومحبت جاری رہا ۔ احساس محبت کا وقت کے طویل دورانیے میں بلا شبہ دریا کی لہروں کی مانند مدوجذر میں بھی مبتلا ہوا ہے چونکہ رشتے جذبات واحساسات سے جڑے ہوتے ہیں اور ان کا گہرا سمبندھ ہوتا ہے لہذا یہ فطری عمل ہے ۔ البتہ مشترکہ آدرشوں ، انسانی اخلاقیات کے مشترکہ سٹینڈرڈز میں کوئی بنیادی فرق پڑ جائے تو پھر دوستی و تعلق کی کیفیت بنیادی قسم کے بدلاؤ سے دوچار ہو جاتی ہے اور بالآخر ان میں دراڑ بھی پڑ جاتی ہے جس کا کوئی حل نہیں ہوتا اور یوں تعلق ختم ہو جاتا ہے ۔ بعض صورتوں میں منافقت بھری حکمت عملی سے ’نظریہ ضرورت‘ کے مطابق تعلق کو قائم رکھنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے مگر VENTILATOR ر پڑے اس وجود محبت کو بہت زیادہ دیر تک نہیں رکھا جاسکتا ۔ " ضرورت " کے ختم ہو جانے کے بعد بات بالکل ختم ہو جاتی ہے ۔ ( یہ ایک منطقی صورت حال ہے ) ۔
گہری تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال اور انسانی نفسیات واحساسات کی جان کاری کے باوجود ، ارد گرد پھیلے ہوئے منفی ، اشتعال انگیز اور دل دکھا دینے والے رویوں کی جانچ اور ان کے بیچ سے گزرتے ہوئے نہایت تحمل کے ساتھ اپنے کمٹمنٹ کو مجروح کیے بنا زندگی میں محبت کرنے کی صلاحیت قائم رکھنا ، تخلیقی آدرشوں کے ساتھ زندگی کا سفر طے کرنا بڑی کمال بات ہے ۔
تحمل کی یہ بلند ترین سطح بہت کم لوگوں میں دکھلائی پڑتی خصوصاً جب وہ انتہائی حساس و تخلیقی دل کے بھی مالک ہوں مجهے سائیں کی اس خوبی نے مجهے ہمیشہ متاثر کیا اور میں نے ان سے اس تحمل کو سیکھنے کی کوشش بھی کی مگر مجهے خاطر خواہ کامیابی نہ ہو سکی ۔ ساتھ گزارے ہوئ زندگی کے طویل دوستانہ سفر میں شاید دو تین بار ہی (کسی کے ساتھ) میں نے سائیں کو شدید جذباتی انداز کی غصیلی کیفیت میں دیکھا، جس پر وہ دوچار منٹ میں ہی قابو پا کر اسی طرح نارمل ہو جاتے تھے ۔ (گویا کوئی نظر نہ آنے والا ریموٹ کنٹرول ان کے ہاتھ میں ہے)
ہماری گفتگو عموماً طویل ہوا کرتی، بعض اوقات کھانے اور چائے کے وقفے بھی آجاتے (ان میں وہ ضرور شریک کرتے )۔ ہماری گفتگو کے موضوعات کبھی طے شدہ نہیں ہوتے مثلاً ایک مرتبہ ZODIAC SIGNS اور ان کے زیر اثر انسان کی شخصیت پر کیا اثرات ہوتے ہیں کے بارے گفتگو جاری تھی، ہماراZODIAC SIGN اسٹار اسد LEO ہے ۔ (جو مشترکہ ہے ) میں نے پو چھا سائیں اسد کا غصہ تو مثالی خطرناک سمجها جاتا ہے اور آپ کے شخصیت تو اس کے بالکل ہی برعکس ہے!!؟ ، مجهے بھی کوئی نسخہ بتلائیں ؟
سائیں ہنسے پھر کہنے لگے ہاں مجهے بھی بہت غصہ آتا تھا مگر یہ بہت پرانی بات ہے. بس زندگی میں ایک ایسا واقعہ ہوا کہ پھر کبھی میں نے غصے کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا ۔ (میں ہمہ تن گوش تھا) میری پہلی اور سب سے بڑی بیٹی جو میرے دل کا ٹکڑا تھی شاید اس کی عمر اس وقت پانچ سال کی ہو گی ایک دن اس نے مجهے انتہائی غصے میں دیکھا تو وہ بہت زیادہ ڈر گئی اور میرے قریب آنے سے گریز کرنےلگی ۔ جب میں اسے لاڈ پیار کے بعد پوچھا تو کہنے لگی، “بابا سائیں آپ کو بہت غصہ آتا ہے تو مجهے آپ سے ڈر لگتا ہے.” بس اس دن کے بعد میں نے غصہ کرنا چھوڑ دیا اور اب بھی کبھی کبھار غصہ آ جائے تو اسے کبھی خود پر حاوی نہیں ہونے دیتا ۔
سندھ کے عظیم دانشور ، لکھاری افسانہ نگار ، ایک بہت نفیس ، مہذب ، محبت کرنے والے انسان ، سچے دوست سائیں ولی رام ولبھ 29 اکتوبر 2023ء قریباً ساڑھے 10 بجے صبح اس دارفانی سے رخصت ہوگئے.