شخصيتون ۽ خاڪا

مُون سي ڏٺا ماءِ

سائين لائق سنڌي سنڌ جي اهڙن ماڻهن مان هڪ هو، جنهن تي جيترو فخر ڪجي اوترو گهٽ آهي. ڏٺو وڃي ته هو گهڻ پاسائين شخصيت جو مالڪ هو. تعليم کاتي سان به واڳيل رهيو ته صحافت جهڙي گورک ڌنڌي سان به توڙ تائين نڀايائين. انهن سڀني وابسطگين جي پٺيان جيڪو سندس مقصد هو، سو هو ”سنڌي ٻوليءَ جو درست استعمال“ ماءُ ٻوليءَ سان کيس عشق هو، ڇاڪاڻ جو هُن اسڪولن ۾ ٻارن جي ٻوليءَ تي به ڌيان ڏيڻ ضرري ٿي سمجهيو ته صحافتي دنيا ۾ به سنڌي ٻوليءَ جي بگاڙ کي روڪڻ سندس مقصد هو.
Title Cover of book مُون سي ڏٺا ماءِ

ہمارے ماسٹر صاحب

ہمارے ماسٹر صاحب
علی حسن
(سينيئر صحافي)
یہ ایک سال کتنا جلدی بیت گیا، کچھ پتا ہی نہیں چلا، لیکن جیسے لالا نے کہا، جانا تو سب کو ہے، لیکں ہوتا یہ ہے کہ بندا اپنے کردار، اپنے رویے اور اپنے معاملات کی وجہ سے اپنی یادیں چھوڑ جاتا ہے۔ میں عام طور پہ سائیں کو یا تو سائیں کہا کرتا تھا یا پھر ماسٹر صاحب۔ پریس کلب کے معاملات پر مجھے جب بھی مشاورت کی ضرورت پڑی میں نے ہمیشہ ماسٹر صاحب سے رجوع کیا۔ وہ بڑے پیار کے ساتھ میری رہنمائی کرتے۔ کہ اس معاملے میں یوں کرو گے تو زیادہ بہتر رہے گا۔ وہ ہمیشہ ایک گمنام سپاہی کے طور پہ اس طرح خاموشی سے کام کرتے گئے اور چرچہ بھی نہیں کیا۔ جس طرح آج کل ہمارے معاشرے میں روان ہے۔ اخبارات کی دنیا میں ڈان وہ واحد ادارہ ہے، جس کے دفتر میں آپ کا جب جانا ہو تو ایک آدمی آپ کو ایسا نظر آئے گا، جو گزشتہ روز کی چھپی ہوئی اخبار پر لال قلم سے نشان لگاتا ہوا نظر آئے گا۔
وہ شخص اخبار کی زبان، اسٹائل اور اس میں پروف کی غلطیوں کی نشاندھی کرتا ہوا دکھائی دے گا۔
جبکہ ہماری باقی اخبارین اس مشق سے بہت دور نظر آتی ہیں۔ ہمارے ماسٹر صاحب ایک واحد کردار تھے جو سارا دن ناصرف ان اخبارات کو پڑھتے رہتے بلکہ ان کی زبان، اسٹائیل اور پروف کی غلطیون کا بھی بڑی باریک بینی سے جائزہ لیا کرتے۔ نا صرف جائزہ لیا کرتے بلکہ ان کی نشاندھی کر کے اخبارات کے صدیران کو بھیجا بھی کرتے تھے۔
آج بھی اردو اخبارات میں عام طور پر مگر سندھی اخبارات میں تو اکثر یہ نظر آتا ہے کہ ڈیسک پر بیٹھے ہوئے ہمارے نوجواں ساتھیوں کو، خبر بنانے کے لئے جب کوئی مناسب لفظ نہیں ملتا تو وہ انگریزی زبان کا سہارا لے کر کوئی لفظ ڈال دیتے ہیں۔ ان کو یہ ذری بھی پرواھ نہیں ہوتی کہ یہ اخبار ہمارے بچے بھی پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ جو اس سے اپنی زبان کی وسعت سے لاعلم رہتے ہوئے انگریزی زبان سے زیادہ مانوس ہونے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ جو مجھے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے اخبارات کے دفتر میں آپ کو مشکل سے ہی کہیں کوئی ڈکشنری نظر آتی ہوگی۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ وہاں پر ایک سے زیادہ مختلف زبانوں کی ڈکشنریاں موجود ہونی چاہئیں، لیکں ایسا ہوتا نہیں ہے، اخبارات میں کام کرتے ہوئے ہمیں جب بھی کسی قسم کی کوئی مشکل سامنے آتی، تو اس صورتحال میں ہم سب ماسٹر صاحب کی طرف دیکھتے اور ہماری شکل آسان ہو جایا کرتی۔
آپ روزنامہ آفتاب کے ابتدائی ایڈیشن پرچی میں نظر ڈالیں گے، تو اُس کی زبان اور اسٹائل کے پیچھے جو شخص نظر آئے گا وہ شیخ علی محمد صاحب نہیں تھے، وہ ماسٹر صاحب تھے۔ بظاہر تو یہ روزنامہ ایک معمولی سا اخبار تھا، مگر اس کی زبان اور اسٹائل کی جب بات ہوگی تو اس نے بڑے بڑے اخباروں کو بہت پیچھے رکھا تھا۔
سائیں کی اس برسی کے موقعہ پر میں ماسٹر صاحب کے فرزند اسماعیل سے گذارش کروں گا کہ اپنے گاؤں موری منگر میں ماسٹر کتب خانہ قائم کریں، اگر اللہ نے چاہا تو آگے چل کر یہ بہت بڑی لائبریری بھی بن جائے گا، جس میں زیادہ سے زیادہ ڈکشنریاں، کتابیں اور اخبارات رکھے جائیں تاکہ ہم ماسٹر صاحب کے بنیادی کام کی اہمیت کو نا صرف سمجھ سکیں، بلکہ اُس کو بڑھا بھی سکیں۔ اس کتب خانے کی قیام میں ماسٹر صاحب کے ہم لائق اور نالائق دوستوں کے ذمے جو بھی کام رکھا جائے گا، ہم اُسے بخوبی انجام دینے کو تیار ہیں۔
اس کتب خانے سے لوگوں کو ہم یہ بتا سکیں گے کہ ہم نے یہ کتب خانہ ماسٹر صاحب کے اس اہم کام کی یاد میں قائم کیا ہے۔ اس سے نہ صرف زبان کی ترقی ہوگی، بلکہ اخبارات کے مطالعے کے شوق سے ماسٹر صاحب ہمیشہ ہمارے درمیان، ہمارے ساتھ رہیں گے۔اللہ پاک ہمارے ماسٹر صاحب کی مغفرت فرمائے۔ آج پریس کلب حیدرآباد کے تمام ساتھی ماسٹر صاحب کو ہمیشہ یاد کریں گے۔
[علي حسن جي ڪيل تقرير سائين لائق سنڌي جي پهرين ورسي جي موقعي تي پريس ڪلب حيدرآباد ۾ 16 جنوري 2015ع]