نور محمد کی کہانی ان کی بیگم کی زبانی: نواب احمد خانزادہ
کئی دن سے ٹال مٹول ہو رہی تھی۔ اور اس میں اکثر اوقات کوتاہی میری جانب سے ہوئی کہ انہیں صحیح صورت حال سے مطلع نہ کر سکتا کہ میں کس قسم کا مواد چاہتا ہوں، آخر ایک روز معلوم ہوا کہ بیگم صاحبہ مسلم ہاسٹل کے معائنے پر تشریف لا رہی ہیں، میں نے ان سے رابطہ قائم کیا تو وہ اس بات پر رضامند ہوگئیں کہ وہ مجھے ہاسٹل میں وقت دے سکتی ہیں۔ خوشی کی انتہا نہ رہی جذبات شوق سے لبریز دل بمشکل سنبھالتے ہوئے جب میں مقررہ جگہ پر پہنچا تو سامنے ایک پیکر وقار تمکنت، مادرانہ و بزرگانہ شفقت کے مجسمہ کو براجمان پایا۔ چوٹا سا قد، سفید ساڑھی، سفید چہرے پر بڑھاپے کی جھریاں ساڑھی کے سر پوش سے جھانکتے ہوئے چاندی جیسے سفیدیاں اور آنکھوں پر نظر کی عینک میں نے مودبانہ لہجے مین سلام کیا اور انہوں نے نہایت شفقت سے سلام کا جواب دیا۔ کچھ طلباء و اساتذہ پہلے ہی سے موجود تھے اور غالباً کسی انتظامی مسئلے کے متعلق گفتگو ہو رہی تھی، ایک صاحب نے میرا تعارف کرایا تو دوبارہ میری جانب متوجہ ہوئیں اور کمال شفقت سے کچھ مسکرائیں، میں نے موقع غنیمت جانا اور حرف مدعا زبان پر لایا، وہاں موجود کئی دوسرے افراد نے بھی میری تائید کی تو فرمایا:
بچو! مجھ ميں اتنی قابلیت نہیں ہے کہ میگزین وغیرہ میں مضمون لکھ سکوں، ویسے بھی ان کی زندگی کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔۔۔
میں نے عرض کی ‘‘آپ کسر نفسی سے کام لے رہی ہیں ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ سندھ کے سر سید کی رفیقہ حیات اور ادب و تحریر سے بے بہرہ ہو، گلاب کی صحبت تو مٹی میں بھی خوشبو پیدا کر دیتی ہے ، بقول سعدی رح
جمال ہم نشیں برمن اثر کرد
و گرنہ من ہمہ خاکم کہ ہستم
متبسم ہوئیں اور فرمایا لڑکے باتیں بہت بنانی آتی ہیں تم کو۔ تم شاید پوری طرح تیار ہو کر آئے ہو، مگر میری طبیعت آجکل کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ بلڈ پریشر کی شکایت ہے اس واسطے کوئی کام یسکوئی سے نہیں کر سکتی۔
میں نے ایک لمحے سوچا اور فوراً ایک ترکیب ذہن میں آئی کہ کیوں نے نور محمد صاحب کے کچھ ایسے واقعات معلوم کر لیئے جائیں جو ابھی تک اکثر لوگوں کو معلوم نہیں ہیں (جیسا کہ ابتدا میں لکھا جا چکا ہے) لہذا میں نے کہا:
’’تو کیا آپ ہمیں زبانی طور پر بھی ان کے متعلق کچھ نہ بتائیں گی؟’’
یہ الفاظ ادا کرتے وقت میرے چہرے پر امید کرن کے ملے جلے جذبات انہوں نے صاف پڑھ لیئے اور شاید کچھ ملتجیانہ لہجہ نے بھی انہین متاثر کیا، فرمایا:
‘‘ہاں یہ ممکن ہے۔’’ ان کے حالات زندگی تو آپ لوگوں نے اکثر و بیشتر میگزین، اخبارات اور رسائل وغیرہ میں پڑھے ہوں گے اور ان کے ہمعصر ساتھیوں اور دوسرے لوگوں کی زبانی سنے ہوں گے، وہ نہایت شریف، خوددار، رحمدل اور خدا ترس انسان تھے نہ وہ کسی کی خوشامد کرتے تھے اور نہ خوشامد کرنے والوں کو پسند کرتے تھے، سب کے ساتھ نہایت عمدہ اخلاق سے پیش آتے تھے۔
بچوں! بیگم صاحبہ نے مادرانہ شفقت سے بھرپور ایک نگاہ ہم سب پر ڈالی اور ہوا میں اپنی نگاہیں جمالیں، جیسے وہ دور ماضی کے دھند لکوں میں جھانکنے کی کوشش کر رہی ہوں اور فرمایا:
‘‘وہ اپنے ملازمین اور بچوں سے کبھی ڈانٹ ڈپٹ سے پیش نہ آتے تھے اور سب بچوں کو اعلی تعلیم سےآراستے سے دیکھنا چاہتے تھے، کیونکہ وہ خود اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، انہوں نے ابتدائی تعلیم سندھ مدرسہ کراچی میں حاصل کی پھر بابا (نور محمد صاحب کے والد اور بیگم صاحبہ کے سسر) نے انہیں علی گڑھ بھیجدیا۔ وہاں سے انہوں نے بی اے اور ایل ایل بی مین نمایاں کامیابی حاصل کی۔
بچوں! انہیں ضرورتمندوں کی مدد کرنے کا بہت شوق تھا اور جب بھی کوئی حاجتمند انکے پاس آتا تو پہلے اسے تسلی تشفی دیتے اور اپنے مخصوص لہجے میں سینے پر ہاتھ رکھ کر اس سے کہتے بابا رکھ اللہ تے یا پٹ رکھ اللہ تے پھر خود اس کے ساتھ جاتے اور جہاں اس کا کام ہوتا وہ کرواتے، ایک دن میں نے ان سے کہا کہ آپ سے تو لوگ ملتے ہوئے گھبراتے ہوں گے کہ اب آئے مسٹر نور محمد کسی کی سفارش کرنے پہ ست کر کہنے لگے بی بی اپنوں کا کام تو ہر شخص کرتا ہے مگر کامیاب وہ ہے جو دوسروں کے لئے کچھ کر جائے۔
اس موقع پر بیگم صاحبہ نے ہم سب کو بھی نصیحت کی کہ اُن کے اس اصول کو اپنائیں مزید فرمایا
اپنے والد کو بہت چاہتے تھے اور بڑی عزت کرتے تھے۔ بڑھاپے کی وجہ سے بابا کی طبیعت میں کچھ چڑ چڑاپن پیدا ہوگیا تھا، پھر بھی خدمت کا یہ عالم تھا کہ اپنے ہاتھوں سے ان کا منہ دھلاتے، تولئے سے صاف کرتے اور بڑے پیار سے ان کی پیشانی کو بوسہ دیتے۔ انہیں اپنے ہاتھ سے کہھلاتے، بابا کی وفات پر کئی دن تک غمگین رہے، جس طرح وہ خود والدین کی عزت کرتے تھے اسی طرح چاہتے تھے کہ ان کے اسکول کے بچے بھی والدین کے رتبے کو پہچانیں۔ ایک دفعہ ایک لڑکا داخلے کے لئے آیا، اس طرح کہ پیچھے پیچھے اس کا ضعیف باپ سر پر سامان رکھے تھا اور یہ تیرہ چودہ سال کا لڑکا خالی ہاتھ آگے آگے تھا۔ آپ نے سب بچوں کو جمع کیا اور ان کے سامنے اس لڑکے کے سر پر سب سامان رکوا کر اسکول کے دس چکر لگوائے۔
ہم میں سے اکثر افراد نے ایک دوسرے کی جانب معنی خیز نظروں سے دیکھا اور مجھے ہر آنکھ یہی گلہ کرتی نظر آئی کہ ہم بھی اپنے والدین کے ساتھ وہ سلوک روا نہیں رکھتے جو ان کا حق ہے۔ بیگم صاحبہ نے شاید اس چیز کو بھانپ لیا اور فرمایا :
بچوں! تم سب بھی اپنے والدین کے ساتھ بہترین سلوک کیا کرو کہ اول وآخر ہی ہے۔ پھر کہنے لگیں میں موضوع سے بھٹک تو نہیں رہی؟ تم کہو گے کہ ان کے حالت زندگی بیان کرنے کے بجاۓ یہ تو وعظ فرمانے لگیں۔
نہیں نہیں ہم سب نے ایک زبان ہو کر کہا ہم آپ کی باتوں سے پورا پورا استفادہ کر رہے ہیں۔
وہ کچھ دیر سوچتی رہیں شاید یہ فیصلہ کر رہی تھیں کہ اب کہاں سے داستان چھیڑی جائے آخر کار فرمایا:
‘‘انہوں نے اسکول اور بورڈنگ ہائوس قائم کرنے مین جو مصائب برداشت کئے، اس سے بہت کم لوگ واقف ہیں، ایک روز کہنے لگے ‘‘ اپنے مکان کے کاغذات کہاں ہیں؟’’میں نے کہا میں ہرگز کاغذات نہیں دوں گی۔ اسکول کی وجہ سے وکالت چھوڑ دی اور اب سر چھپانے کی جگہ بھی رہن رکھنا چاہتے ہو۔’’ میں نے زیورات کی صندوقچی مین مکان کے کاغذات رکھ کر الماری کو مقفل کردیا۔ ان کے انتقال کے وقت ہم پولیس کمشنر کراچی مولوی ضیاء الدین کے پاس ٹہرے ہوئے تھے، وہیں ان کا انتقال ہوا۔ ضیاء الدین صاحب نے بتایا کہ آپ کا مکان بھی میرا اللہ داد صاحب کے پاس رہن رکھا ہوا ہے۔ بچوں! کیا بتائوں اس وقت مجھ پر کیا گزری؟ دنیا تاریک ہوگئی ایک تو شوہر کا سایہ اٹھ گیا دوسرے سر چھپانے کی جگہ نہ رہی۔ خانماں برباد۔ مگر شکر ہے تیجے والے دن ہی دکن سے میرے بھائی آگئے اور وہاں جو لوگ جمع تھے ان مین بہت جوش و خروش تھا۔ تقاریر وغیرہ ہوئیں اور لوگوں نے سینوں پر ہاتھ مار مار کر عہد کیا کہ ‘‘نور محمد نے اسکول اس لئے نہیں بنایا تھا کہ ا سکے بال بچے بے گھر ہوجائیں۔ ہم بھیک مانگ کر بھی انہیں آرام سے رکھیں گے’’۔ غرض بچوں مسلمانوں نے ان کی خدمات کی قدر کی سنا ہے تین ہزار روپے میر صاحب نے معاف کردیئے اور باقی پانچ ہزار روپے اسکول نے ادا کئے۔
یہ کہہ کر بیگم صاحبہ سانس لینے کو رکیں تو ایک صاحب نے چائے تیار ہونے کی اطلاع دی آپ نے وہاں ہی چائے لانے کو کہا۔ چائے کے دوران خاموشی رہی اور ہر شخص اپنی اپنی جگہ پر سندھ کے سر سید کی خدمات پر غور کرتا رہا۔ میں نے بیگم صاحبہ کے جھڑیوں پڑے ہوئے پر وقار چہرے پر نظر ڈالی تو یوں لگا جیسے میں بھی ان کے ساتھ بیسیوں سال پیچھے کی دنیا میں پہنچ گیا ہوں اور نور محمد صاحب کے ساتھ ہر تحریک میں شریک ہوں۔ کمرے کے سکوت کو بیگم صاحبہ گھمبیر اور با تمکین آواز نے توڑا۔
‘‘ہاں تو بچوں! انہوں نے اپنی ذاتی منفعت کیلئے کوئی کام نہیں کیا۔ اپنی زندگی قوم کے لئے وقف کردی ورنہ چاہتے تو اعلی تعلیم یافتہ تھے ہر عہدہ حاصل کر سکتے تھے۔ خلافت کے زمانے مین انگریز حکومت کے خلاف بہت کام کیا۔ مجھ سے کہتے تھے بی بی تمہاری وجہ سے مجبور ہوں جیسا کام کرنا چاہتا ہوں نہیں کر سکتا کہ میرے جیل میں جانے کے بعد تم اکیلی رہ جائوگی۔ ایک دفعہ کلکٹر نے بلاکر کہا کہ نور محمد ان بیکار کاموں کو چھوڑو ہشیار آدمی ہو ہم تمہیں اچھی ملازمت دیں گے۔ مگر انہوں نے صاف انکار کردیا۔
یہاں بیگم صاحبہ ایک لمحے کے لئے سانس سدرست کرنے کو رکیں، اور پھر فرمایا:
کشمیر میں میری پھوپھی کے لڑکے خسرو جنگ بہادر وزیر تھے، انہوں نے کئی مرتبہ ‘‘ان’’ ان کو اعلی عہدے پیش کئے۔ مگر انہوں نے ہر مرتبہ انکار کیا اور یہی کہتے رہے کہ میں آزاد رہ کر ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ یہ کہہ کر بیگم صاحبہ نے ایک بھرپور نگاہ ہم سب پر ڈالی جس میں افتخار کی جھلک صاف نظر آرہی تھی اور پر تمکنت لہجےمیں کہا ‘‘بچوں! کیا آج بھی ایسے بے لوث افراد پائے جاتے ہیں جو بغیر کسی عہدے یا انعام کی لالچ کے قومی خدمت کر سکیں۔’’ اور میں نے ان الفاظ کو تیر کی طرح اپنے نوجوان معاشرے کے دل میں اترتے دیکھا۔
اسی دوران ایک لڑکا اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ کمبل اوڑھے ہوئے گزرا، آپ مضطرب ہوگئیں او رکہا کہ گرمی مین اس لڑکے نے کمبل کیوں اوڑھ رکھا ہے، واقف حال اصحاب نے بتایا کہ وہ بیمار ہے اور اسے ڈاکٹر کے پاس لے جایا جا رہا ہے۔ یہ سن کر ان کی آنکھوں میں بلا کی روشنی آگئی اور کہا:
‘‘ انہیں بھی ہمیشہ اس بات کا خیال رہتا تھا کہ ہاسٹل میں بچوں کو کسی طرح تکلیف نہ ہو۔ کوئی بچہ ہاسٹل میں بیمار ہوجاتا تو بڑے پریشان ہوتے۔ گھر سے سوپ، ساگودانہ وغیرہ پکواکر لے جاتے اور اس کی تیمارداری کرتے، اکثر کہا کرتے تھے کہ ا ن کے والدین نے اللہ کے بھروسے پر اپنے بچے چھوڑ ے ہیں اور اللہ نے یہ کام میرے سپرد کیا ہے۔ ‘‘ وہ اسکول کے بچوں کو گھر پر بلا کر بھی پڑھاتے تھے اور اپنے اسکول کا نتیجہ ہر حال میں بہتر دیکھنا چاہتے تھے۔ ہاسٹل کے بچوں کی تکلیف کا خاص خیال رکھتے تھے اور اچانک ہاسٹل پہنچ جاتے اور ان کے ساتھ کھانے میں شریک ہوتے۔ اس طرح بچوں کی غذا معیاری ہوگئی بچوں ! امتحان کے دنوں میں اپنی صحت کی پرواہ نہ کرتے اور دن رات بچوں کو پڑھاتے۔ ڈاکٹروں نے بہت منع کیا مگر نہیں مانے اور صحت خراب ہوتی چلی گئی۔
اتنا کہہ کر خاموش ہوئیں تو میں نے پوچھا بیگم صاحبہ ان کے کوئی مخصوص معالج بھی تو رہے ہوں گے۔ فرمایا:
ہاں! حیدرآباد میں ایک سول سرجن تھے کرنل ہال گٹ، انہی کا علاج کرتے تھے۔ جب کرنل ہال گٹ کا تبادلہ کراچی ہو گیا تو اس کا تبادلہ دوبارہ رکراچی کروایا۔ خود کرنل نے اس کی خواہش کی تھی اور وہ اس بات پران کا بہت احسان مند تھا۔ کرنل ہال گٹ ایک دفعہ کراچی میں تھا، ان کی طبیعت کچھ معمولی سی خراب ہوئی۔ مجھ سے کہا کہ میں ‘‘کرنل ہالی گٹ ’’ کے پاس کراچی جا رہا ہوں۔ نسخہ وغیرہ لکھوا کر آجائوں گا۔ کچھ ایسے زیادہ بیمار بھی نہیں تھے۔ ان کی عادت تھی کہ جب کبھی باہر جاتے روز ایک خط خسرور لکھتے اور مجھے بھی لکھتے رہنے کی تاکید کرتے۔ ایک روز خط میں لکھا کہ: میں بہتر ہوں طبیعت ٹھیک ہے۔ کل تھوڑی سی کھچڑی کھائی تھی ہضم ہوگئی۔ اس سے پہلے کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا۔ اسی دن شام کو تار آیا کہ آپ فوراً آئیں خدمت کی ضرورت ہے۔ میں باحال پریشان پہنچی حالت بگڑ چکی تھی چوتھے دن بیچارے ختم ہوگئے۔
بیگم صاحبہ کی آواز یہاں تک پہنچ کر بھرا گئی اور ہم سب کے منہ سے ایک ساتھ نکلا انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ بیگم صاحبہ کچھ دیر تک خود پر قابو پاتی رہیں پھر ایک عزم آلود لہجے میں جس میں فخر کی جھلکیاں نمایاں تھیں یوں گویا ہوئیں۔
ان سے بعض لوگ ان کی اولاد کے متعلق سوال کیا کرتے تھے، ایک روز دفتر میں بیٹھے کام کر رہے تھے ایک صاحب ملنے آئے، اثنائے گفتگو میں انہوں نے دریافت کیا آپ کے کتنے بچے ہیں۔ انہوں نے اس وقت تو ٹال دیا جب اسکول کی چھٹی ہوئی اور سب بچے باہر نکلے تو انہوں نے ان صاحب سے کہا آپ نے میرے بچوں کے متعلق پوچھا تھا؟ پھر اسکول کے بچوں کی طرف اشارہ کر کے کہا: دیکھیئے یہ سب میرے بچے ہیں۔ یہاں تک کہہ کے ہم سب کی جانب مامتا بھری نظروں سے دیکھا اور پھر متکلم ہوئیں۔
جب ان کا انتقال ہوا میری گود میں صرف ڈیڑھ سال کی بچی تھی۔ اس کو وہ بہت چاہتے تھے کہتے تھے ‘‘میرا دل چاہتا ہے اسے خوب پڑھائوں ، خدا کرے یہ میرا دماغ۔ اور وہ بچی واقعی باپ کی طرح ہوشیار اور عقلمند نکلی۔ بچپن ہی سے پڑھائی کی شوقین اور بلا کی شوقین قابل باپ کی قابل بیٹی کبھی کسی امتحان میں فیل نہ ہوئی۔ کم عمری میں اکنامکس میں ایم اے کیا اور اب زبیدہ کالج میں لکچرار ہے۔
بچوں! کالج، اسکول، ہاسٹل اور میری بچی کی طرح تم سب بھی میرے لئے ان کی یادگار ہو۔ میری دلی خواہش ہے کہ تم سب مل کر ان کے افکار کو عملی جامہ پہنائو یہ کہہ کر بیگم صاحبہ نے ہم سب پر ایک ناقدانہ نظر ڈالی اور مجھ پر نظریں جماتی ہوئی بولیں:
کیوں میرے بچوں، بنو گے نا ؟نور محمد، سندھ کے سر سید، اور ہم سب نے یک زبان کہا انشاء اللہ و تعالیٰ
(رسالو الڪمال، ايڊيٽر ڪمال الدين ميمڻ، 12 سيپٽمبر 1937ع، حيدرآباد تان ورتل)