شخصيتون ۽ خاڪا

نور محمد لاکير جون سياسي، سماجي ۽ تعليمي خدمتون

ھن ڪتاب جي سھيڙ ۽ ترتيب ۾ سنڌ جي ھڪ اھم سياسي ۽ سماجي شخصيت نور محمد لاکير کي نروار ڪيو ويو آھي. نور محمد لاکير جي سڀ کان اھم خدمت تہ حيدرآباد ۾ قائم ڪيل نور محمد ھاءِ اسڪول ۽ مسلم ھاسٽل آھي پر ساڳي وقت سندس ڪيل ڪيترن ئي ڪمن کي جيڪي اسان کان اوجهل ھيا انھن کي پڻ اڳيان آندو ويو آھي. ڪتاب جي پھرين حصي ۾ نور محمد لاکير جي شخصيت ۽ ڪيل ڪمن بابت لکيل مختلف مضمون، ٻئي حصي ۾ نور محمد اسڪول ۽ مسلم ھاسٽل جي تاريخ، ٽئين حصي ۾ مختلف تقريرون ۽ مضمون، چوٿين حصي ۾ مختلف خط، پنجين حصي ۾ منظوم ڀيٽا ۽ ڇھين حصي ۾ اردو مضمون شامل ڪيا ويا آھن.

Title Cover of book نور محمد لاکير جون سياسي، سماجي ۽ تعليمي خدمتون

در عقیدت: ایم ایف افضل

محان بزی کہ اگر مرگ ماست مرگ دوام
خدا زکردہ خود شرمسار تو کردہ
شاعر مشرق نے کیا خوب کہا ہے کہ انسان کو ایسی زندگی بسر کرنا چاہیے کہ جب وہ انسان اس جھان فانی کو خیر باد کہہ جائے تو اس کی موت کا اسکے پس ماند مان کی نسبت خدا کو زیادہ افسوس ہو۔ ہمیں نہیں کہ خدا کو افسوس ھہ بلکہ یہ کہ خدا اپنی اس حرکت پر (نعوذ باللہ ) شرمسار ہو!
بھلا سوچیئے تو سہی، ذرا خیال تو فرمائے، کہ خداوند کریم جو لفظ ‘کن’ سے دنیا وما فیہا پیدا کر سکتا ہے، اسکو کیا غرض بڑی کہ ایک ھیچ میرز ضعیف ابدنیان ھستی کی موت پر شرمسار ہو۔ جبکہ وہ موت و حیات پر قادر ہے، جس کے کرشموں میں سے ایک ادنی سا کرشمہ یہ ہے کہ۔
یکے را بسر بر لھد تاجھ بخت، بکیے را بھاک اندر آردز تخت
کلاہ سئادت بکیے بر سوش، گلیم شقادت بیکے دو برش
طریقہ العینی جھان برھم زند، کسی نمی آرد کہ آن جادم زند
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی زندگی کے لوازمات کیا ہیں؟ وہ کونسی زندگی ہے کہ جسکے ختم ہو جانی پر خدا کو خود افسوس و ندامت ہو؟ وہ کونسی حیات ہی کہ خود خالق ارض و سما اسکی اختتام پر رنجیدہ ہو؟
موجودہ نسل کی لئے اس سوال کا جواب مشکل نہیں۔ کیونکہ ابھی چند روز ہوئی ایک ایسی جلیل القدر، قابل رشک اور نایاب ھستی ھماری دیکھتی دیکھتی، دعائیں مانگتی مانگتی، اللہ میاں کےآگے سر بسجود ہوتی ہوتی، اس سرائی سپنج سے اس دار بقا کی طرف کوچ کر گئی۔ کہ جس پر عنوان کی شعر کا اطلاق مکمل طور پر ہوتا ہے۔ قارئین کرام سے مخفی نہیں ہوگا کہ میرا مطلب ہے میاں نور محمد مغفور لوگوں کو کامیاب انسانو کی زندگی پر رشک آیا کرتا ہے۔ لیکن مرحوم ایسی ہی عدیل انسان تھے کہ اغیار و احباب کو انکی موت پر رشک آتا ہے!!
جب مرحوم کا جنازہ انسانی سروں کی ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں متعدین کی اخلاص آگین کندہوں پر لہرایا جا رہا تھا، ا س وقت اپنا ہو یا پرایا، دوست ہو یا دشمن، مسلم ہو یا غیر مسلم، کونسا ایسا ذی نفس تھا، جس کی دل میں یہ آرزو نہیں پھڑ پھڑا رہی تھی کہ کاش یہ موت مجھے نصیب ہوتی، کاش یہ پھول مجھ پر نچاور کئے جاتے، کاش یہ گلاب مجھ پر چھڑکا جاتا، کاش یہ مرثی میری شان میں پڑھے جاتے، کاش یہ آنسوں میری یاد میں بہائے جاتے قصہ مختور کاش اس تابوت میں میں ہوتا!!! کیونکہ مرحوم کو یاد کرنی والی، مرحوم کرنے والے صرف مرحوم کی اہل و عیال ہی نہ تھی، لواحقین ورشتیدار ہی نہ تھی، بلکہ اپنی اور پرانے، یگانے اور بیگانی سبھی تھے۔ وہ یتیم بچی جنہوں نے اپنی باپ کی موت کی پرواہ نہیں کی تھی، آج زار و قطار رو رہی تھی، و ہ جری نوجوان جنہوں نے اپنی بھائیوں اور دوستوں کی موت کو پرکاہ کی اہمیت نہیں دی تھی، آج سینہ کو بان نظر آ رہے تھے۔ وہ سالخورردہ بزرگ جو کہ موت کا نظارہ دیکھتے دیکھتے اب پختہ کار ہو چکی تھی، آنسووں کی جھڑیاں لگا رہے تھے۔
آخر یہ بیقراری کیوں تھی؟ آخر یہ عالمگیر حشر سامان رنج و الم کیا تھا؟ مرحوم نہ زردار وڈیری تھی کہ انکی پیسے کو لوگ رو رہے تھے، نہ باوقار افسر تھے کہ انکی جائز و ناجائز چرفداریاں یاد کر رہے تھے، نہ یا خدا پیرو صوفی تھے کہ مریدان با صفا کی حوصلے ٹوٹی جا رہے تھے۔ نہ پنڈت و مہاتما تھے کے جن کی داس اور چیلی اب اناتھ ہو گئے تھے۔
تو آخر مرحوم میں کونسی کیمیا تھی؟ کونسی نایاب صفت تھی؟ کونسی بات تھی؟ جو سندھ کی ذری ذری سی خراج گریہ وصول کر رہی تھی؟ جس نے بیگانوں کو اپنا اور دشمنوں کو دوست بن الیا تھا، مرحوم کی وہ کیمیا صفت خوبی تھی خلق خدا کی خدمت۔ بے ریا خدمت، بے توقع بے معاوضہ خدمت، وہ خدمت کہ جو امیر و غریب کی لیئے یکساں بھی۔ وہ خدمت جو اپنے اور بیگانے کی لیئے یکساں تھی۔ وہ خدمت جو جو صحت و بیماری میں یکسان تھی وہ خدمت جو محض خدمت کی غرض سے کی جاتی تھی اور نہ تعریف و ستائش کے لیئے نہ۔ عہدے یا خطاب کی لیئے، دوستی یا دشمنی کی لیئے۔ وہ مکمل اور ہم گیر خدمت کہ جس سے اپنی اور غیر کا سوال اٹھ جاتا ہے۔ بلکہ خادم خود مجسم خدمت بن جاتا ہے یا یوں کہیں کہ فنا فی الخدمت ہو جاتا ہے۔ بے جیسے کہ مرحوم کی حالت فی الواقع تھی۔ کہ اس خدمت قوم و خدمت خلق کی دھن میں نہ اپنی زد کی پرواہ نھ اپجی گھر کی پرواہ نہ اپنی بیوی کی پرواہ نہ بچوں کی پرواہ۔ اور تو اور اس پروانے نے خدمت کو اپنی صحت و بیماری تک کی پرواہ نہیں، اپنی زندگی و قوت تک کی پرواہ نہیں!
تو کیا قوم نے اس کسی بے لوث خدمات کا اجر نہیں دیا؟ اس کے قومی محبت کی قدر نہیں کی؟ نہیں کی اور ضرور کی!! قوم نے اس شہید قوم کی وہ قدر کی کہ جو نہ کسی خدا رسیدہ صوفی کو نصیب ہوگی اور نہ شب زندہ دار زاہد کو۔ نہ کس کثیر العلائق حاکم کو نصیب ہوگی اور نہ کسی بایقین محکوم کو۔
اللہ اللہ کیا سچ کہا ہے شاعر نے:
عبادت بجز خدمت خلق نیست!
(یعنی دنیا سے سب کی بہتر عبادت خلق کی خدمت ہے۔)

ایم ایف افضل صاحب ایم ای بی ٹی، ایم، آر-ایس –ٹی (لنڈن) ھیڈ ماسٹر ھائی اسکول حیدرآباد

(رسالو الڪمال، ايڊيٽر ڪمال الدين ميمڻ، 12 سيپٽمبر 1937ع، حيدرآباد تان ورتل)