شخصيتون ۽ خاڪا

سيد زوار نقوي (فن ۽ شخصيت)

ڪتاب  ۾ سائين زوار نقويءَ جي شخصي، ادبي، علمي، صحافتي ۽ سماجي پھلوئن جو مڪمل نچوڙ شامل آھي.ڪتاب ۾ سيد زوار نقوي جي فن ۽ شخصيت بابت مختلف اديبن ۽ شعوروندن جون لکڻيون، سيد زوار نقوي جا لکيل ڪجهه مضمو، بيان ۽ ڪالم، خاڪا، تاثر، تعزيت ناما. انٽرويوز، روح ڪھاڻي، شاعري، جيون خاڪو، سيلف انٽرويو ۽ سيد زوار نقويءَ باب لکيل ڪجهہ ايڊيٽوريل شامل آھن.

Title Cover of book سيد زوار نقوي (فن ۽ شخصيت)

نثر کا بادشاہ

جہانیاں سادات سے ہمارا محبت و عقیدت کا رشتہ بہت پرانا ہے مگر میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ دؤر میں ایک ایسی شخصیت بھی موجود ہے جو سجادہ نشین ہونے کے ساتھ ساتھ علم و ہنر کا بحر بیکراں بھی ہے۔ میری مراد ماہر تعلیم اور وادی سندھ کے مشہور و معرف شاعر و ادیب پروفیسر مخدوم زوار حسین شاہ نقوی ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ علم و ادب کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ صوبہ سندھ کا ایسا کوئی علمی و ادبی حلقہ نہیں ہوگا جو ان کی خدمات اور کاوشوں سے بے خبر ہو۔ یہ مبالغہ آمیز بات نہیں بلکہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے اور میں نے اس بات کو شدت سے محسوس کیا ہے کہ وہ جتنے بڑے ادیب ہیں اتنے بڑے انسان بھی ہیں۔ جو احباب زندگی میں ایک مرتبہ بھی ان سے ملاقات کر چکے ہیں وہ میری اس بات کی تائید کریں گے۔ مختلف شعبہ جات میں انہوں نے خلوص دل اور دیانتداری سے اپنی ذمے داریوں کو نبھایا ہے۔ بلاشبہ ان کی پُر اسرار شخصیت کے کئی پہلو ہیں جنہیں کُلّی طور پر بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ لہٰذا اپنی بات کو اختصار کا جامہ پہنانے کی کوشش کرتا ہوں۔
دوستو! کچھ ہی دن پہلے ان کی نئی کتاب (بات ایک دؤر کی) شائع ہو چکی ہے جس میں ان کے شاہکار کالمز کو یکجا کرکے کتابی صورت میں منظرِ عام پر لایا گیا ہے۔ اس کتاب میں 1994 تا 1999 تک ان کے 60 سے زائد کالمز شامل ہیں جو انہوں نے مختلف سندھی اخباروں کے لیے تحریر کیے تھے۔ ان کے کالمز کا مطالعہ کرکے سندھ خصوصاً حیدرآباد کے اُس دؤر کے متعلق جاننے کا موقع ملا ہے جس دؤر کی انہوں نے اپنے کالمز میں عکاسی کی ہے۔ ان کے کالمز مختلف موضوعات پر مبنی ہیں جو بے حد معلوماتی بھی ہیں۔ ان کے ایک رات تھی کالمز و دلچسپ و رنگین مضامین، خوبصورت الفاظ، تشبیہات و استعارات اور دیگر تمام خوبیوں سے سرشار ہیں جو ایک نثر میں ہونی چائیں۔ انہوں نے ایک نشست میں کتاب کی اشاعت کے متعلق اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ "مجهے اپنی کتاب کی اشاعت کے موقع پر اتنی خوشی ہوتی ہے جتنی کسی ماں کو اس کے پہلے بچے کی پیدائش کے موقع پر ہو" جبکہ اس کتاب سے پہلے انکی شاعری کے دو مجموعے، ایک ناولٹ اور افسانوں کا ایک مجموعہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ ان کی نوازش وار ان کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ وہ خود ہمارے غریب خانے پر تشریف لے آئے اور اپنی کتاب عنایت فرمائی۔ میں تو دل سے ان کی خدمت میں مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ان کا تہہ دل سے شکر گذار ہوں۔ پروردگار ان کو سدا شاد و آباد رکھے۔

قبلہ سائين لک لک مبارڪون هجن.

(اردو جي نامور نوجوان شاعر محمد رضا حيدري جي وال تان 28-5-2021ع)