شخصيتون ۽ خاڪا

ڊاڪٽر ذوالفقار سيال: ادب ۽ شخصيت

ھن ڪتاب ۾ نامياري شاعر، نثرنگار ۽ سرگرم ادبي شخصيت ڊاڪٽر ذوالفقار سيال جي شخصيت تي لکيل مضمون ۽ رايا شامل آھن. سنڌي ادب جي تاريخ جا اهم ڪردار اسان وچ ۾ بيٺل ادب جي روشن ستاري ڊاڪٽر ذوالفقار سيال جي فني لياقتن تي قلم کڻن ٿا، ان کان وڌيڪ مڃتا ڊاڪٽر ذوالفقار سيال لاءِ ٻي ڪهڙي ٿي سگهي ٿي جو هو نه فقط سنڌ ۽ هند جي ادبي حلقي ۾ پنهنجي ناماچاري رکي ٿو پر ڏيهه توڙي پرڏيهه جي اديبن ۽ سڄاڻ ڌرين ۾ ايترو ئي مقبول آهي، جيترو پنهنجي ٻوليءَ ۾، ان جو اعتراف اردو جي نامياري اديب ۽ ڪالم نويس محمود شام به پنهنجي مضمون ۾ ڪيو آهي. جڏهن ته ڪتاب ۾ شامل سنڌي، اردو ۽ انگلش مضمونن ۾ ڊاڪٽر ذوالفقار سيال جي گهڻ رخي شخصيت تي مڪمل طور بحث ٿيل آهي.

  • 4.5/5.0
  • 22
  • 1
  • آخري ڀيرو اپڊيٽ ٿيو:
  • ساجد سنڌي
  • ڇاپو پھريون
Title Cover of book ڊاڪٽر ذوالفقار سيال: ادب ۽ شخصيت

ممتاز سندھی شاعر، ادیب، دانشور ڈاکٹر ذوالفقار سیال سے انٹرویو : انٹرویو :اختر سعید

س: آپ نے ادبی سفر کا آغاز کس طرح کیا، کیا اس کے کوئی خاص محرکات تھے؟
ج: سیکنڈری اسکول کے زمانے سے، میں نے بچوں کیلئے شاعری کی، اس زمانے میں بچوں کی شاعری بہت متاثڑ کرتی تھی اور پھر جرائد اور اخباروں میں بچوں کے لیئے خاص صفحات بھی مخصوص تھی۔ ان کے محرکات یہ تھے کہ لفظوں اور خیالوں کو ایک ذریعہ اظہار ملنا چاہیئے۔

س: سندھی ادبی سنگت کے حوالے سے اپ نے کس نوعیت کا کام کیا اور آئیندہ کے لیئے کیا منصوبہ بندی ہے؟
ج: سندھی ادبی سنگت ایشیا کی سب سے بڑی ادبی جماعت ہی۔ جس کی ۱۲۲ براچیں اور سندھی کے دس ہزار رائیٹرز اور شعار ممبر ہیں۔ سندھی ادبی سنگت نہ صرف سندھی کے اندر فعال ہے بلکہ اسلام آباد اور انگلینڈ میں بھی قائم ہی۔ ۱۷ اکتوبر ۱۹۵۶؁ء کو سندھی مورشتہ الاسلام کراچی میں سندھ بھر کے ادیبوں کا کنوینشن ہوا تھا، جس میں سندھی ادبی سنگت کی الگ الگ برانچوں نے الحاق کر کے سندھی ادبی سنگت سندھ کی بنیاد رکھی تھی۔ اور اس کے پہلے سیکریٹیر ڈاکٹر ایاز قادری اور جوائنٹ سیکریٹیر شمشیر الحیدری تھے جو بعد میں سیکریٹری جنرل بنے۔
سندھی ادبی سنگت اس مانے میں انجمن ترقی پسند مصنفیں پاکستان کا سندھی ورزن تھا۔ جس میں کامریڈ سوبھو گیانچندانی، شیخ ایاز، نور الدین سرکی، جمال ابڑو، مقبول بھٹی، رشید بھٹی،تاج بلوچ اور بہت سے ادیب و شاعر فعال تھی۔ میں نے اس کو سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔ اس سارے دور میں پہلی مرتبہ میں نے ویب سائیٹ دی۔ دو ماہی مئگزین (سنگت) کے نام سے شائع کیا جوآج تک تسلسل کے ساتھ شایع ہو رہا ہے۔ ادیبوں اور شاعروں کی کتابیں شایع کیں۔ سندھ کے مسائل پر نصیر میمن کی اردو میں کتاب شائع کی، جو بہت مقبول ہوئی۔ کتابوں پر گولڈ میڈل دیئے، ادیبوں اور شاعروں کی سالگرہ، برسیاں منعقد کیں۔ سندھی میں چھپے ہوئی کتابوں کی رونمائیاں کیں۔ پاکستانی زبانوں میں سنندھی ادب کے تراجم کروائے اور ملکی سطح پر سندھی ادبی سنگت کی گولڈن جوبلی منائی۔ آئندہ کے منصوبوں میں مستقل آفس کا قیام، ایک جدید لائبریری اور پاکستانی زبانوں میں سندھی ادیبوں اور شاعر کے تراجم شامل ہیں۔

س: سندھ ادب میں شاعری زیادہ لکھی جارہی ہے یا نثر؟
ج: سندھی ادبی میں نثر اور شعاری یکساں لکھی شاعری زیادہ مقبول ہے جس کے اور بھی محرکات ہیں۔ ایک تو سندھ میں صوفیوں اور کلاسیکل شاعروں نے شاعری میں بڑا کام کیا ہے۔ قدیم شاعروں نے جو لہجہ اور تخیل پیش کیا ہے، جدید شاعروں نے اس آگے بڑھایا ہے۔ سدنھی افسانہ/کہانی کا شمار دنیاء ادب کے بہترین افسانوں میں کیا جاتا ہے۔ جس مں جمال ابڑو، امر جلیل، نور الہدیٰ شاہ، عبدالقادر ونیجو، آغا سلیم، علی بابا کے نام نمایاں ہیں۔

س: آپ کی نگاہ میں کون سے سندھی رائیٹرز زیادہ اہم ہیں۔ اپنی کارکردگی کے حوالے سے؟
ج: سندھی ادب کی تاریخ بہت پرانی ہے، ہمارا کلاسیکل ادب آج تک ادبی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ لیکن آپ نے جدید حوالی سے پوچھا ہے تو یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ سندھی ادیبوں نے شروع سے ہی لیکر آج تک بہت زیادہ کام کیا ہی۔ نہ صرف سندھی زبان میں بلکہ اردو اور فارسی میں بھی بہت مددگار ثابت ہوئے ہیں" پیر حسام الدین راشدی نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ساتھ کام کی اور مولوی صاحب اس کے ساتھ، ان کے گاؤں میں بھی قیام پذیر ہوئے۔ نیاز ہمایونی نے اردو بورڈ میں اردو زبان کیلئے بہت کام کیا، انہوں نے فارسی ادب میں بھی اپنی خدامت سرانجام دیں۔ پیر علی علی محمد راشدی نے بھی اردو میں بہت زیادہ لکھا ہے۔ ہمارے کلاسیکل شاعروں سچل سرمست، میر علی نواز ناز نے جس اعلیٰ پائے کا اردو کلام لکھا ہے، اس ۔۔۔ جدید ادیبوں اور شاعروں میں کامریڈ سوبھو گیانچندانی، ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ، جمال ابڑو، شیخ ایاز، طالب المولیٰ، امر جلیل، شمشیر الحیدری، نورالدین سرکی، نورالہدیٰ شاہ، سرالحق میمن، آغا سلیم، عبدالقادر جونیجو، مرحب قاسمی، علی بابا، تاجل بیوس، تاج بلوچ، فتاح ملک، سرویچ سجاولی، مریم مجیدی، عنایت بلوچ، اسحاق انصاری، ڈاکٹر بدر اُجن، یوسف سندھی، مشتاق پھل اور بہت سے جدید ادیب و شاعر شامل ہیں۔

س: آپ نے ادب کی کن کن صنفوں پر کام کیا ہے؟
ج: میں نے شاعری کے حوالے سے سندھی ادب میں بہت نمایاں کام کیا ہی۔ میری نظم بچوں کے لیئے شاعری کی سب سے زیادہ کتب، اب تک میری ہی چھپی ہوئی ہیں۔ اور (Children Poetry) پر جدید انداز میں سائنس کو بھی موضوع سخن بنایا ہی۔ میں نے ہجری مطبوعات اسلام آباد کے رئیس فروغ کی مرتب کی ہوئی کتاب "گیت پھلونے" کا سندھی زبان مں منظوم ترجمہ کیا، جو سندھیالوجی نے ۱۹۸۳؁ء میں شایع کیا۔ جس میں اردو زبان میں بچوں کے لیئے نظمیں بہت عمدہ اور مشکل تھی۔ اور اس کا ترجمہ بڑی محنت سے کیا۔ جس کے بہت سے ایڈیشن شایع ہوئے ہیں۔ سندھی شاعری میں جدید موسیقی، ڈسکو اور ریپ سانگ سب سے پہلے میں نے ہی لکھے جو آج تک مقبول عام ہیں۔ جدید شاعری کے تین مجنوعے شائع ہوئے ہیں" "رن سجورت پٹھڑا (صحرا میں خون کے قطرے)"، "گاڑھا ریتھ پیلا چہرا (پیلے چہرے سرخ ہاتھ)" "بارش کھان پو (بارش کے بعد)" شائع ہوئے ہین" کل گیارہ شاعری کی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
میں نے گذشتہ ۳۵ سالوں سے اخبار کالم "آئینہ عیں عکس (آئینیے اور عکس)" لکھ رہا ہوں۔ جسمیں سماجی، ادبی اور ثقافتی موضوعات پر جدید سائنسی انداز میں لکھ رہا ہوں، میں نے ملک کے اہم فنکاروں مہدی حسن، مہناز، گلبہار بانو، محمد علی شہکی، عالمگیر، ٹرپل ایس سسٹرز، خلیل حیدر، سجاد علی، آسیہ ثمن، رحیم شاہ، لی رضا، کرم عباس خا، شہدہ پروین، شبانہ کوثر، شازیہ حسین، جاوید اختر، روحانی بانو، سلیم جاوید، بینا حسن، عالیہ حسین، عصمت جبین، تہمینہ سردار اور بہت سارے گنکاروں سے سندھی گیت گوائے۔ (رحیم شاہ کی زندگی کا پہلا گیت سندھی میں ہی رکارڈ کروایا تھا۔

س: اردو اور سندھی ادیبوں کے درمیان ثقافتی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیئے آپ کے ذہن میں کیا تجاویز ہیں؟
ج:اردو ادیبوں میں ہر سطح پر ہم اہنگی پہلے بھی تھی، اب بھی ہی، آئندہ ھی رہے گی اور زیادہ ہونی چاہیئے۔ سندھ کے سارے ادیب اردو ادب کا مطالعہ کرتے ہیں، اردو ادیبوں کو بھی پاکستان کی زبانوں سندھی، پنجابی، پشتو اور سرائکی میں لکھے گئے ادب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہم فارسی، عربی، نگالی، تلنگو ادب کو بڑے شوق سے پڑہتے ہیں لیکن اپنے دیسی ادب کا بھی مطالعہ کرنا چاہیئے۔ جس کے لئے ہمارے ادبی اداروں، اکادمی اادبیات، سندھی ادبی بورڈ اور دوسرے اداروں کو پاکستانی زبانوں کے ادب کے تراجم شائع کروانے چاہیے۔ سندھ میں ایک بار پھر اردو سندھی مشاعروں کا اہتمام اور اردو، سندھی ادبی سیمینار کروانے چاہیے۔ جس میں پاکستان آرٹس کونسل اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

س: کیا آپ اکادمی ادبیات پاکستان کی موجودہ کارکردگی سے مطمئن ہیں؟
ج: اکادمی ادبیات پاکستان، سرکاری ادیبوں کی پیروکاری چھوڑ کر اپنی ادبی کارکردگی کی بنیاد پر کام کرے تو اچھا ہوگا۔ یہاں درباری ادیبوں کو زیادہ اہمیت دینی، ادیبوں کی سیاسی وابستگی کے بجائے ادبی خدمات کو اہمیت دینی چاہیے اور یہ سرکاری اور درباری شاعروں اور ادیبوں کو ابھارنے کے بجائے ادب کی خدمت کرنے والوں کو اہمیت دینی چاہیے۔ ادیبوں کو کیٹگری میں تقسیم نہیں کرنا چاہیے۔ میرے خیال میں اب تک کی کارکردگی، سرکاری ادارے والی ہی۔ لیکن موجودہ چیئرمین جو خود ایک ترقی پسند اور حقیقت پسند ادیب اور دانشور ہیں۔ اگر فخر زماں صاحب نے بھی وہی درباری کام کیا جو یہ ادارہ کرتا رہا ہے تو پھر یہ ایک اور المیہ ہوگا!

س: آپ فکری اور نظریاتی طور پر کس گروہ کے ساتھ ہیں؟
ج: میرا تعلق ترقی پسند فکر اور نظریہ کے ساتھ ہے اور میں نے اس کیلئے کافی کام بھی کیا ہے۔ ہمیں سچائیوں کا ساتھ دینا ہوگا اور بنیاد پرستی اور رجعت پرستی سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا۔

س: کیا آپکا نظریہ ادب، نظریہ زندگی سے مختلف ہے؟
ج: اب یہ بحث بہت پرانی ہوگئی ہے، ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی۔ ادب اور زندگی لازم وملزوم ہیں، لیکن وہ ادب جو زندگی سے دور ہے ہم اس کو ادب کہہ نہیں سکتے، وہ اور تو کچھ ہوسکتا ہے۔ ادب نہیں ہوسکتا۔ ادب کا زندگی سے تعلق ہونا، بنیادی نقطہ ہے، اور کڑوا سچ اور سچائی اس کا حصہ ہونا چاہیے۔

س: ہماری معلومات کے مطابق سندھی میں بہت اچھی کہانیاں لکھی جا رہی ہیں، کی اان کو اردو میں منتقل کروانا ممکن ہے؟
ج: بہت آسانی کے ساتھ ممکن ہے اور یہ ہونا بھی چاہیے۔ اس کام کے لئے کتنے ادارے قائم کیئے گئے ہیں۔ جن کا میں نے تذکرہ بھی کیا ہے۔ نہ صرف سندھی لیکن پنجابی، سرائیکی، بلوچی، پشتو کہانیاں بھی اردو میں منتقل کروانا ممکن ہے۔ سندھی ادبی سنگت ترجمہ کیلئے حاضر ہے اور ایسی خدمات کرنا چاہیتی ہے۔ اگر کس پبلشنگ ادارے نے رابطہ کیا تو ہم بھی یہ کام کرنے کیلئے تیار ہیں" موجودہ سیکریٹری جنرل یوسف سندھی اس سلسلہ میں کام کر رہے ہیں۔
س: سندھی میں ادب لکھنے والوں کی نئی نسل سے کیا توقعات ہیں؟
ج: ہر نسل جدیدیت کا تقاضا کرتی ہے۔ سندھی ادب لکھنے والوں کی نئی نسل بھی وقت کے ساتھ چلنا چاہتی ہے۔ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ رہنا چاہیتی ہے۔ اور وہ بھی چاہتی ہے کہ الفاظ کی توقیر میں اضافہ ہو اور تنگ نظری سے نجات ملے اور سیلف ریسپیکٹ ہونی چاہیے۔ ہمیں برداشت کا ماحول پیدا کرنا ہوگا اور آپس محبت کو باٹنا ہوگا۔

س:آپ سندھی زبان کے کس کس شاعر سے سب سے زیادہ متاثر ہیں؟
ج: شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست، جبکہ بلاشبہ شیخ ایاز سندھی زبان کے اہم شاعر ہیں لیکن سندھی زبان میں بہت سے شاعر ہیں۔ جن کا اپنا انداز اور لہجہ ہے اور آپ جانتے ہیں کہ شاعروں کے مختلف اضاف سخن ہیں۔ ڈاکٹر تنویر عباسی، تاجل بیوس کا بھی اپنا مقام ہی۔

س: اپنی ادبی زندگی کا کوئی یادگار واقعہ؟
ج: محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کے پہلے دور میں، لاڑکانہ میں اردو سندھی مشاعرہ تھا، کراچی سے ایک چارٹرڈ فلائیٹ مخصوص کی گئی تھی، جس میں شاعر اور فنکاروں کو لے جانا تھا۔ اس فلائیٹ میں احمد فراز، ممتاز مرزا، عابدہ پروین، علن فقیر، علی محمد خاصخیلی اور بہت سے لوگ شامل تھی۔ اوسپی میں جب جہاز طوفان میں پھنس جانے کے باعث جھٹکے کھانے لگا تو اس وقت جہاز میں موجود شاعر اور فنکار رونے لگے، علن فقیر نے تو چلانا شروع کیا۔ پائلٹ بتاتا رہا کہ "ہم طوفان میں پھنسے ہوئے ہیں، دعائیں کریں" اور جب جہاز اس طوفان سے نکل گیا، تو سارے ادیبوں اور فنکاروں کے چہرے مسکرا رہے تھی۔ اور ہم کراچی ایئرپورٹ کے قریب تھے۔


(روزنامہ جنگ مڈویک کراچی ۲۴ فروری ۲۰۰۹؁ء