مسیحائی اور شاعری: رخشندہ نوید
ایک رائٹر کی آنکھ کیا نہیں دیکھ سکتی۔ اگر آنکھ دیکھے نکلے تو کرہ ارض کا جغرافیائی تناظر،گلوبل ولیج کے نفع نقصانات، الیکٹرونک میڈیا کی یلغار، اس جہاں میں دکھائی دینے والے تغیر و تبدل ،غربت، بھوک افلاس، جنگیں فتح و شکست فلطسین ، کشمیر ، چیچنیا، بوسنیا، کیا کیا موضوعات ہیں کہ جوآنکھ میں ذو میں نہیں آسکتے، مگر میری ذاتی رائے میں بڑی گہری اور بھرپور تحریر وہی ہے جو ایک لکھاری ،ایک شاعر اپنےاپنے علاقے، بستی ، اپنی مٹی اور اس کے تقدس اور وقار سے وابستہ ہونے اور وابستہ رہنے کے لئے لکھتا ہے اور شاعر کے اشعار جس قدر اپنے ماحول کے پس و پیش کو منعکس کریں گے اتنی ہی شاعری زندہ شاعری میں شمار ہوگی۔
سو اس کتاب کو بند پلکوں سے پڑھ لینے اپنے تخیل اور باطن کی آنکھ سے دیکھ لینے کا جواز یہی ہے کہ کتاب جذبوں اور جذبات سے مزین ہو اوراس محسوسات کے عالم میں قدم رکھتے یہ انسان مٹی کی خوشبو سے مالا مال ہو جائے تو اور کیا چاہیے ۔ سو میں نے سندھی زبان نہ جانتے ہوئے بھی اس کتاب کو پڑھا اور محسوس کیا ہے اور پرکھه لیا ہے کہ ان کی ہر کتاب اپنی معاشرت اور زندگی کی عکاسی ہے۔ اس میں اس کے سوا کچھ تلاش کریں گے تو بقول غالب شاید مل جائے چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوطـ)
ڈاکٹرذوالفقار سیال جن کی شخصیت میں سیال مادہ موجود ہے اور جو دنیا جہاں میں ، جگہ جگہ گھومنے پھرنے کا شرف رکھتے ہیں۔ اسی لئے ان کے گیتوں اورغزلوں میں رنگا رنگی ملتی ہے، وہ رنگا رنگی جو چھن چھن کرتی اور رقص کرتی ہوئی گیتوں کا روپ دھارتی ہے۔ اور بڑے سے بڑا گائیک اسے گانے میں اپنا اعزاز سمجھتا ہے۔ ان کے وطن کےلئے لکھے گیت اور ترانے ہمیشہ ٹاپ ٹین میں شامل رہے ہیں۔ ڈاکٹر سیال جن کا پیشہ مسیحائی ہے، زخم دیکھا ، زخم بھرنا اور زخموں پر مرہم رکھنا ان کا فریضہ ہے ۔ وہ برسا، برس سے مسیحائی کے درجے پر فائز ہیں۔ مگرمعاشرے کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنا بھی کسی مسیحائی سے کم نہیں۔نننھےے منے بچوں کے لئے ان کا جذبہ ترحم ،ان کے تراجم یقیناً قابل ذکر ہیں۔ وہ جس لگن اور لو سے علم وادب کی جانب مائل ہیں یہ سب کےلئے قابل تقلید بھی ہے اور وہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ ایک انسان بیک وقت چاہے تو کیا کیا نہیں کرسکتا۔ پچھلے وقتوں میں انہیں ٹی وی پروگرامز کی میزبانی کا شوق چرایاتو وہ کئی برسوں تک اس میدان میں ڈٹے رہے۔ بہت سی ادبی تنظیموں کے سرگرم رکن، عہدیدار ان اور کمیٹی ممبران میں شامل ہیں۔ان کی مدھم سُروں میں لکھی جانے والی شاعری میں ایک موسیقیت موجود ہے۔ جو اس مصائب سے بھرے روز و شب میں کنج عافیت سے کم نہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے شاعری سیال صاحب کی شخصیت میں موجود ہے۔
سوچا جائے تو شاعری اور اس کا مقصد کیا ہے۔ شاعر لوگ شعر کیوں کہتے ہیں۔ کیا یہ مقصد مشاعروں میں اپنے اشعار کا ریٹ اور بھاو لگانے تک محدود ہے۔ یا پھر شعر نیکی کر دریا میں ڈال کے مصداق اپنی شاعری کا اجرخدا سے طلب کرنے تک موقوف ہے، ۔اس کے سوا بھی شاعری میں شعر کہنے کے بہانے بن سکتے ہیں۔ جو کچھ درمیان کے راستوں سے منسلک ہیں مگر اصل بات یہی ہے کہ دل سے لکھے گئے بول، سچ میں گوندھی بہترین تحریر کبھی کسی آنکھ سے اوجھل نہیں رہتی ۔ہر حال میں سماعتوں تک رسائی پاہی لیتی ہے۔
ڈاکٹر سیال صاحب کی شاعری میں بھی سچے اور میٹھے لہجوں میں توانا جذبوں کااظہار ہے جو اپنامقام خود متعین کرواتی ہے ۔ ان کی سرائیکی اورسندھی زبان میں لکھی گئی شاعری نے انہیں اس مسند پر فائز کردیا ہے جہاں وہ ایک جانا پہچانا نام مقام رکھتے ہیں۔
انکی غزل میں بھی دلربائی ہے مگر گیت ان کا اپنا ہی پسندیدہ صنف سخن معلوم ہوتاہے۔ انکے گیت میں سُر تال اور موسیقی اس لئے بھی زیادہ ہے کہ جب شاعر خود موسیقی کی زبان بھی جانتا ہو تو اسے بحر وزن اور ردھم کا بخوبی دھیان رہتا ہے۔ سو معلوم یہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر سیال مسلسل اور مستقل اپنی ذات کے کیتھار سس میں مشغول ہیں۔
ڈاکٹرصاحب کے بیشتر گیت تانیسی لہجے میں لکھے گئے ہیں۔ گو بابا ئے گیت حضرت امیرخسرو کی روایت بھی یہی تھی مگر میں ڈاکٹر سیال سے کہتی ہوں ۔ اگر تو ڈاکٹرصاحب کسی معاشرتی دباو کا شکار ہیں تو ہم انہیں درخواست کرتے ہیں کہ اپنے گیت اپنے جینڈر کی زبان میں لکھیں۔ ہم ان کے ساتھ ہیں۔ اس طرح ان کے گیتوں کی تڑپ، لگن اور محبت کی چاشنی اور بھی بہتر سلیقے سے ٹپکنے لگے گی اور گویا وہ زندگی سے اور قریب ہوجائیں۔
آخر میں اپنی خواہش کا برملا اظہار کرنا چاہتی ہوں کہ اس میل ملاپ سے آنے جانے سے بین الصوبائی رائٹرز میں روابط میں اضافہ ہوتا رہنا چاہیے ۔ڈاکٹرصاحب کے لئے ایک شعرکہص کر اجازت مانگوں گی۔
الفت کے شناور کو کہیں ڈوب نہ جانا،
دریائے محبت کے کنارے نہیں ہوتے۔