اَدب اور نخلِ سخن کی آبیاری میں ڈاکٹر ذوالفقار سیال کی گراں قدر خدمات: زیب النساء زیبیؔ
شام جب ہم سب مشاعرے گاہ میں پہنچے تو پورے پاکستان سے آئے ہوئے شعرا و ادبا اور سامعین کی ایک بڑی تعداد اس مشاعرے کو سننے کے لیے موجود تھی۔ ذوالفقار سیال نے اسٹیج اور مائیک سنبھالا تو مسند نشینی کے مہمانوں کا نام پکارتے ہوئے سب کا تعارف، ان کی تخلیقات کی تفصیلات اور ان کی انفرادی ادبی کاوشوں کے تذکرے کے ساتھ انہیں اسٹیج پہ مدعو کیا، چند ہی لمحوں کے بعد مسند نشینی کے اعزاز کے لیے میرا نام بھی پکارا گیا اور ساتھ ہی ساتھ میری ۰۶ سے زائد کتب کی تفصیلات کا بھی تعارف کرایا گیا۔ تمام ہال تالیوں سے گونجنے لگا اور میں اسٹیج کی جانب رواں ہوگئی، وہ تمام شعرا جو میرے اسٹیج پہ بیٹھنے کی وجہ سے گومگو کی کیفیت میں تھے اُن کے چہروں کے رنگ اُڑے ہوئے تھے، اُن کی ترتیب دی ہوئی شعرا کی فہرست ان کے ہی ہاتھوں میں تھمی کی تھمی رہ گئی تھی۔ اس موقع پر ایک خاتون شاعرہ اور ان کے دوستِ خاص نے خوب واویلا مچانے کی بھی کوشش کی لیکن ڈاکٹر سیال نے کہا کہ میں نے اہلیت، قابلیت اور محترمہ کی طویل قلمی مشقت اور بے اندازہ ادبی صلاحیتوں و تخلیقات کو مدنظر رکھتے ہوئے اُنہیں مسند نشینی کا اہل سمجھتے ہوئے انہیں یہ اعزاز عطا کیا ہے۔ اگر آپ میں سے کسی کا بھی اتنا ادبی کام اور تخلیقات ہیں تو سامنے آئے، میں اُس کو بھی اسٹیج نشینی عطا کردوں گا، تمام سامعین نے خوش دلی سے ڈاکٹر سیال کے اس بیان کی تائید کی۔ میرے لیے یہ عزت اللہ کی طرف سے عطا کردہ تھی۔ اسی مشاعرے میں ڈاکٹر سیال نے یہ بات بھی ثابت کی کہ وہ نہ صرف ادبی گروہ بندی سے بالاتر ہیں بلکہ آورد کے نہیں آمد کے شاعر ہیں اور یہ صلاحیت اُن میں خداداد موجود ہے، فرداً فرداً وہ جب بھی کسی شاعر کو کلام پیش کرنے کے لیے نام پکارتے تو پہلے اُس کا تعارف فوری طور پہ ایک قطعے کی شکل میں پیش کرتے، فی البدیہہ اس طرح شعر کہہ کے تعارف کرانا ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
جہاں تک اُن کے کلام کا تعلق ہے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ انہوں نے نخلِ سخن کی آبیاری جس خلوص و ریاضت سے کی ہے اُس نے اُنہیں جدید شعرا کی صفِ اوّل میں لاکھڑا کیا ہے، آپ کی فکرِ رسا اور چشمِ مشاہدہ نے فنِ شاعری کو جِلا بخشی ہے۔ آپ زندگی کے ہر تجربے اور مشاہدے کو سچّے جذبوں کی روایتی پاسداری کے ساتھ اپنے کھرے اور دل نشیں لہجے میں دیانت داری اور دل آویزی کے ساتھ پیش کرنا جانتے ہیں۔ آپ اپنے کلام میں لفظی ساختیات، استعارات و تشبیہات سے جمالیاتِ شعر کے حُسن کو اُبھارتے ہیں، آپ کے کلام میں تازگی، نیا پن اور جدّت موجود ہے۔
شعری اَسالیب میں ندرتِ حسن موجود ہے، فکر و نظر کی گہرائی اور وُسعتِ مضامین کلام کو موثر بناتی ہے۔ معاملاتِ حسن و عشق ہوں یا درونِ ذات سے باہر کے خارجی تلخ حقائق، اُن میں آفاقیت اور ہمہ گیریت کے رنگ نمایاں ہیں۔ موضوعات کے انتخاب میں اچھوتا پن ہے۔شعر ؎
آپ کے اشعار، متنوع کیفیات، جداگانہ حَسین رنگوں اور اپنے عہد و ماحول کے نمائندہ ہیں جن میں شدتِ احساس کی فراوانی اور فکر کی جولانی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نمایاں ہے۔ شعر ملاحظہ فرمائیے ؎
آپ زندگی کی حقیقتوں اور صداقتوں پہ یقین رکھتے ہیں، حساس دل، عدل و انسانیت اور سچ و حق سے شناسا ہیں۔ یہی رُوحانی بالیدگی اور وجدانی کیفیات آپ کے جذبات و احساسات کی صورت گری بن کر آپ کے کلام کی ترجمان بن جاتی ہے۔
آپ ایک کہنہ مشق شاعر ہیں، عصری مسائل اور تقاضوں سے پوری طرح بہرہ ور ہیں، ابلاغِ شعر کے جملہ فنی اور جمالی لوازمات سے پوری طرح واقف ہیں۔ غزل کے مزاج، رمزیت، لطافت، ایمائیت، غنائیت اور شعری قوائد و ضوابط سے شناسا ہیں۔ آپ ایک پختہ گو شاعر ہیں، اسلوب میں بے ساختگی، سادگی، روانی اور لفظیاتی تاثر کی گہرائی قاری اور سامع کو متوجہ کرتی ہے۔
بچوں کا ادب:
ڈاکٹر سیال نے جو بچوں کا ادب اور شاعری تخلیق کی ہے اُس میں اس بات کا پوری طرح خیال رکھا ہے کہ بچوں کو جو معلومات فرمائی کی جارہی ہیں وہ سچ حقائق اور درستگی کے معیار پہ پوری اترتی ہوں، اُن میں دلچسپی، تفریح اور بچوں کی خوشی کا عنصر اُنہیں یہ کلام پڑھنے پہ مجبور کرے۔
جو بات بھی کہیں وہ بچوں کی ذہنی سطح اور ان کے مزاج کے مطابق ہو۔ حروف و الفاظ کے استعمال میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ وہ بچوں کو باآسانی سمجھ آسکیں۔ بچوں کی کردار سازی، اخلاقیات اور ان کے مستقبل کو روشن بنانے میں کام آئے۔ وہ تمام معلومات جو زندگی کے ہر بدلتے مرحلے پہ بچوں کی ضرورت ہوں ان کو سہل انداز میں بچوں تک پہنچایا جائے۔
بچوں کا ادب تخلیق کرنا کوئی آسان کام نہیں، بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق سوچنا اور ان کی سطح پہ جا کر اُن سے بات چیت کرنے کا عمل مشکل ترین مرحلہ ہے، جیسے ڈاکٹر سیال نے بحسن و خوبی انجام دیا ہے۔ آپ نے بچوں کے لیے دس کتب تخلیق کی ہیں جس کے لیے نئی نسل ہمیشہ آپ کی ممنون و مشکور رہے گی۔
ایک حساس شخص منافقت سے بالاتر ہوکر اپنے گرد و پیش کا مطالعہ کرتا ہے اور بیرونِ ذات کے مسائل کو اپنے کربِ ذات کا حصہ بناکر اپنی تخلیقات کو زندگی بخشتا ہے۔ آپ کی تخلیق کردہ کہانیوں میں ظلم کی مذمت، مظلوم کی حمایت اور انسانیت کی سربلندی کا پیغام ایک جیتی جاگتی زندگی کی بقا کا مظہر ہے۔ آپ جس دلیری، جواں مردی اور حوصلہ و ہمت سے ادبی شعبے میں قدم جمائے ہوئے ہیں وہ قابلِ تحسین ہے۔ خوشامد، مفاد پرستی، چاپلوسی کے اسی ادبی ماحول میں سچائی اور حق کو زندہ رکھنا کوئی آسان کام نہیں۔ آپ ادب میں ایک گھنے سایہ دار درخت کے مانند ہیں اور ادب کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھلارہے ہیں۔ آپ ضمیر کی آزادی کے قائل ہیں، جہالت، فرسودہ روایات، جبر و گھٹن اور آمرانہ بالادستی کے خلاف قلمی جہاد میں مصروف ہیں۔
آپ کے افسانے ہوں، ناول، تنقیدی مضامین، کالم نویسی یا تحقیق اور شاعری، اس ادب کے گلستاں کا ہرپھول آپ کے منفرد اندازِ نگارش کی وجہ سے سندھی اور اُردو ادب کو مہکا رہا ہے۔
آپ کے قلم کی کاٹ، حروف کے نشتر اور کڑوی کسیلی تلخی کا ذائقہ آپ کی کہانیوں کو امر کرتا ہے۔ آپ نے زندگی کے سفاکانہ مناظر کو اچھوتے انداز میں قاری کے سامنے رکھا ہے، آپ کے چند اہم افسانوں کے نام یہ ہیں:
ڈاکٹر ذوالفقار سیال کی ایک ضخیم کتاب ”شاعری کا سفر“ کے عنوان سے شایع ہوئی، اس کتاب کی تقریب رونمائی آرٹس کونسل کراچی میں منعقد کی گئی جس میں اُردو ادب کے صفِ اوّل کے شعرا، ادبا اور مشاہیر نے اپنی رائے کا اظہار کیا، اس موقع پر میں نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا جسے مختصر مقالے کی شکل میں یہاں میں بیان کرنا چاہتی ہوں۔ جہاں تک ڈاکٹر سیال کی شخصیت اور ان کے ادبی قد و قامت کا تعلق ہے اُس کے لیے کسی تفصیلی تعارف کی ضرورت نہیں، آپ دودرجن سے زائد کتب کے تخلیق کار ہیں، بیک وقت آپ شاعر، افسانہ نگار، کالم نویس، محقق، نقاد، مترجم، دانشور اور مفکر ہیں۔ آپ نے نہ صرف میڈیکل سائنس میں ڈاکٹریٹ کیا بلکہ آپ پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں۔
ڈاکٹر ذوالفقار سیال سندھی ادبی سنگت کے جنرل سیکریٹری رہ چکے ہیں۔ اس تنظیم نے سندھ کے شعرا، ادبا، مشاہیر اور قلم کاروں کو ایک شاندار پلیٹ فارم عطا کیا۔ اس ادارے کی انتظامی اور بہتری کے اُمور کی کارکردگی آپ کے عہد میں عروج پہ رہی، اس ادارے کو رواں دواں رکھنے اور بامِ عروج تک پہنچانے کے لیے آپ ہمیشہ پُرعزم، مستعد، فعال اور پُرجوش رہے۔
تحقیق و تنقید کے حوالے سے آپ کا ہمیشہ زندہ رہنے والا کام ”شاعری کا سفر“ ہے۔ جو کام کئی ادارے بھی مل کر نہیں کرسکتے وہ آپ نے تن تنہا کر دکھایا۔ سندھی ادب کی مکمل تاریخ کو یوں یکجا کرنا آپ کی برسہا برس کی محنت کی نتیجہ ہے۔ اس کتاب میں آپ نے سندھی شاعری کی تاریخ کا آغاز ”راءٍ دور“ (۵۹۴ء۔۲۳۶ء) سے کیا ہے۔ عرب دور (۲۱۷ء۔۰۵۰۱ء) یحییٰ بن خالد برمکی کے دورکے مشہور شعرا (۰۵۰۱ء۔۰۵۳۱ء) ان میں پیر نور الدین، پیر صدرالدین حسینی، پیر شمس سبزواری ملتانی، بابا فرید گنج شکر اور کئی شعرا، اس کے بعد کے عہد میں (۰۲۵۱ء) تک کے شعرا پہ تحقیق شامل ہے۔ پھر (۱۲۵۱ء۔۵۵۵۱ء) میں دورِ ارغون کے عہد کا تذکرہ ہے۔ اس کے بعد ترخان دوم (۲۵۹۱ء سے ۵۵۹۱ء) تک کے شعرا کے بعد، پھر مغلیہ دور کے شعرا (۲۹۵۱ء سے ۰۰۷۱ء) کا عہد ہے۔ کلہوڑوں کے دور میں (۰۰۷۱ء سے ۲۸۷۱ء) کے شعرا شامل ہیں، پھر نثری نظم کے شعرا کا تذکرہ ہے، آگے جاکر (۲۸۷۱ء سے ۳۴۸۱ء) تک کے تالپور کے عہد کے شعرا پہ تحقیقی کام ہے۔ اس میں سائیں سچل سرمست جیسے بلند پایہ شاعر شامل ہیں۔ پھر ۳۴۸۱ء سے ۲۴۹۱ء تک انگریزوں کے دور کے شعرا کا ذکر ملتا ہے، پھر ۲۴۹۱ء سے ۷۴۹۱ء تک کے شعرا کا تذکرہ ہے، پھر ۷۴۹۱ء سے پہلے اور بعد کے شعرا کے کلام اور تعارف کا حصہ شامل ہے۔ آگے جاکر جدید سندھی شعرا کی تفصیل موجود ہے۔ اس کے بعد نئے شعرا کا تعارف اور اُن پہ تحقیق موجود ہے۔ تحقیق و تنقید میں آپ نے جس بصیرت اور صلاحیت کا اظہار کیا ہے وہ ادب کے قاری کے لیے گراں بہا سرمایہ ہے۔
الغرض یہ اہم ترین کام سندھی ادب میں ہمیشہ تاریخِ ادب کے طالب علموں کے کام آتا رہے گا۔ اور یوں ڈاکٹر ذوالفقار سیال کا نام سدا زندہ و تابندہ رہے گا۔
کالم نویسی:
آپ نے ”آئینہئ عکس“ کے نام سے کالم بھی لکھے، اِن کالم کا مقصد بھی حالاتِ حاضرہ سے قاری کو واقف کرنا، اُن کے مسائل اور مصائب کو سامنے لانا ہے، آپ اپنی نثر میں کبھی مصلح، کبھی رہنما، کبھی محسنِ قوم نظر آتے ہیں، گوکہ آپ ترقی پسند تنظیموں سے وابستہ ہیں لیکن اسلام سے محبت اور ملتِ اسلام سے وابستگی آپ کی ذہنی اور قلبی پاکیزگی کی مظہر ہے۔ آپ اپنے ملک و قوم و سماج کی ترقی و خوشحالی، استحکام و بہتری، ترویج و بقا کے لیے ہر لحظہ سرگرمِ عمل نظر آتے ہیں۔
آپ کو سندھی ادب اور اپنی قوم کے افراد کی بہتری اور خوشحالی سے غیر معمولی دلچسپی ہے اور ان کے مستقبل کی بہتری کے لیے آپ دن رات کوشاں ہیں۔ آپ نے شاعر و ادیب، دانشور و صحافی کی حیثیت سے علمی و ادبی شعبوں میں فکری، اخلاقی اور تہذیبی عوامل کو فروغ دیا ہے۔ آپ نے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اعتدال و توازن کے ساتھ کامیابی، خوشحالی اور کامرانی سے ہمکنار کیا ہے۔
آپ اپنے دوستوں، خاندان کے افراد، میل ملاقات والوں اور ماتحت عملے کے ساتھ اپنے بہترین برتاؤ کی بدولت بہت مقبولیت رکھتے ہیں۔ آپ سادہ مزاج، خوش اخلاق، منظم عادات و خصائل کے مالک، دیانت دار انسان ہیں۔ اپنی ذات کو آپ نے فلاح و بہبود کے لیے وقف کررکھا ہے۔ جانے انجانے ہر شخص کے آپ کام آتے ہیں۔ آپ بناوٹ اور دِکھاوے سے خود کو دُور رکھتے ہیں۔
آپ کا ادبی سفر ابھی جاری ہے۔ ربِّ کریم آپ کی تخلیقی صلاحیتوں کو مزید پروان چڑھائے، آپ کے قلم کی سیاہی اور ذہن کی سوچ و فکر کبھی بنجر نہ ہو۔ آمین
جیتے رہیے خوش رہیے۔میری دُعائیں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں۔ آمین