”کاری“
میں تاریک راہوں کی
تنہا ابھاگن
سدا سبز دھرتی کی
ایسی سہاگن
جسے کالےلوگوں نے کاری کہا ہے
مگر آج میری یہ التجا ہے
کہ اے چاند آؤ
گواہی دو میری
میں کاری ہوں
یا اس جگت ریت کالی
اوکالے اُفق کے
حسین چاند میرے
آؤ اپنے کرنوں سے
اس جابچپن کی
میرے اُجلے پن کی
گواہی تو دیدو
میں وہ کاری ہوں
جس کی نس نس سے رس کے
سچائی نے سینچی ہے رسم وفا
میرا جرم یہ ہے کہ
آنکھوں کے آنگن
گلابوں کے موسم میں کھلنے لگے تھے
اور اس انجمن میں
یہ دونوں دوارے
کسی اجنبی کو بلانے لگے تھے
تھیا تھیا اپنے سیاں کی گلی میں
دیوانی پھری اس کو بہلارہی تھی
اور اس پی کے آنگن
کھڑی اونچی بیری
کی چھیان تلے
جھانجھ چھنکار ہی تھی
یقین جانو میرا یہ ہی اک جرم تھا
کہ قاتل نے اپنے
گناہوں کے خنجر
میری معصومیت کے گلے میں اتارے
اسی بے گناہی کی
نوحہ گری سے
ناکردہ جرم پر
سزا مقرری سے
موہنجودڑو لرزاں لرزاں ہوا تھا
اور اپنی مٹی کی
اسی بے حسی پر
وہ نچنی بھی صدیوں سے روٹھی ہوئی ہے
اٹھو لوگو ماتم کرو اس رسم کا
مٹا ود جہاں سے
چلن دوغلے پن کا
میں مجرم ہوں
تو سب شریک جرم تھے
ہاں پر مرد ناطے
وہ اس سے بری تھے
اے نوخیز سورج کی چنچل شعاؤں
سندھو جل کو چھوتی
مہکتی ہواؤں
ابھاگن کے خون کے سرخ آبگینو
آؤ میرے ماتھے کا جھومر تو چو مو
او پورب اور پچھم کی اُڑتی ہواؤ
آؤ مجھ ابھاگن کو سینے لگاؤ
میری مانگ سے خوں کے چھیننے اُٹھاکر
درندوں کی نسلوں پہ کالک سجاؤ
کہو وحشیوں کو میں کاری نہیں ہوں
کسی اور کا میں کرن بھر رہی ہوں
میں کاری نہیں ہوں
میں کاری نہیں ہوں۔۔