شاعري

لاٽ

هي ڪتاب”لاٽ“نامياري ليکڪ، شاعر، صحافي ۽ سنڌ پرست شمشير الحيدري جي شاعريءَ جو مجموعو آهي. ”لاٽ“ پهريون دفعو 1962ع ۾ طارق اشرف ڇپايو جيڪو اڻ لڀ ٿي ويو. 2012ع ۾ لاٽ جو ٻيو ڇاپو نئون نياپو اڪيڊمي، سچل ڳوٺ ڪراچيءَ پاران ان وقت شايع ٿيو جڏهن شمشير الحيدري آغا خان اسپتال ڪراچيءَ جي بيڊ تي زندگيءَ جا آخري ڏينهن ڪاٽي رهيو هو. ٿورائتا آهيون پياري دوست، سنڌ سلامت جي مانواري ميمبر، بدين سان تعلق رکندڙ شاهنواز ٽالپر جا جنهن ڪتاب ڪمپوز ڪري سنڌ سلامت ڪتاب گهر ۾ پيش ڪرڻ لاءِ موڪليو.
Title Cover of book لاٽ

میں کہ اک تںہا مسافر

میں کہ اک تںہا مسافر
شوق مںزل میں کئی برسوں سے چلتا جارہا ہوں،
اک عظیموبے نہایت کارواں کے ساتھہ ساتھہ
نے کوئی مںزل معین
نے کوئی رخت سفر
اور ہے کوئی نہیں سارے قافلے کے ساتھہ کوئی راہبر،
پھر بھی اک موہم انجانی لگن لے جا رہی ہے کھیںچ کر
کس طرف؟
کس مقامِ آخری تک؟
کوئی بھی تو اس عظیم وبے نہایت کارواں میں
واقفِ حالات وآگاہِ رخِ فردا نہیں
میں کہ اک تںہا مسافر
اپںی ہستی میں غبارِراہ کا عالم لئے
ہر قدم، پر ایک مںظر جو کہ گذرا
ذہن کی گوشوں میں سب باہم لئے
کارواں کے ساتھہ ساتھہ، کارواں سے دور دور
شوقِ مںزل میں کئی برسوں سے چلتا جارہا ہوں

اب کہ جب اہل سفر تھک ہار کر،
درماندہ وبے حال اور گم کردہ راہ
اک گھںے پُرہول جںگل میں اچانک آگئے ہیں،
رات پَر پھیلائے دوڑی آرہی ہے،
جاگ اٹھے ہیں قریب دور اندھیروں کے بھوت
چار سُو پر خوف آوازں کا شور
سوکھے پتوں پر سر کٹے، ازدہوں کی سر سراہٹ
اور بڑہتی جارہی ہے چہار سو خونخوار شیروں بھیڑوں کی
تیکھی نظروں کے سدا بیرحم شعلوں کی بھڑک
جیسے ہر اک سانس جم کر رہ گئی ہو
جیسے نبضِ وقت تھم کر رہ گئی ہو،
تب یکایک جیسے میرے ذہں کے گوشوں سے ہرگذرا ہوا مںظر
نکل کر آرہا ہے سامںے
اپںی تاریخِ سفر کا ہر ورق لہراہا رہا ہے سامںے
یہ نشانِ اولین ہے میری رودادِ سفر کا؛
آگ کا دریا ہے یہ
خون کا دریا ہے یہ
داستانِ دردپہیم، قتلِ صدخوباں ہے یہ،
صدیوں سے میں جسے اپںا وطن سمجھا کیا،
مجھہ کو بتلایا گیا
وہ وطں میرا نہ تھا
اک بڑے گھر کی جگہ چھوٹا سا گھر اچھا رہے گا،
دوسرا مںظر ہے یہ
آگ کا دریا ہے یہ بھی
خون کا دریا ہے یہ بھی
داستانِ درد پیہم، قتل صدخوباں ہے یہ بھی
جو وطن میرا بںا
مجھہ کو بتلایا گیا
وہ وطں میرا تھا
اک بڑے گھر کی جگہ چھوٹا سا گھر اچھا رہے گا
اور پھر یہ تازہ مںظر ہے کی جس میں
آگ کا دریا بھی ہے
خون کا دریا بھی ہے
قتل صدخوبان بھی ہے
ڈر رہا ہوں
کوئی پھر مجھہ کو بتلانے لگے
اک بڑے گھر کی جگہ چھوٹا سا گھر اچھا رہے گا،
میں کہ اک تںہا مسافر
شوقِ مںزل میں کئی برسوں سے چلتا جارہا ہوں؟
کارواں کے ساتھ ساتھ
کارواں سے دور دور

۲۰۰۰ع