خیال کی بستی
نظر کے سامںےمیرے، عجیب مںظر تھا؛
بہت ہی دور بسی تھی خیال کی بستی،
قریب و دور فقط میرا ہی تصور تھا
عجیب قسم کی تںہائیوں کا تھا ماحول،
بڑا وسیع تھا میدان، رات کا عالم؛
فضا میں خوف کے آثار تھے سبھی پیدا،
جہاں کے سارے اندھیرے وہیں پہ تھے باہم
مصیبتوں کی اِسی رات پر نظر رکھہ کر،
مجال ہے دیے کو کہ وہ رہے قائم؛
کرے تو کون بھلا آکے اتںا کچھہ حیلا،
مٹاکے خود کو، دیے کو رکھے صحیح سالم
مصیبتوں کی اِسی رات پر نطر رکھہ کر
یقین کا تو یہاں وہم ہی گذرتا ہے؛
مگر خیال کی بستی میں کیا نہ تھا ممکن
ہوا کے دوش پہ شعلے کی پرورش کیا ہے
یہاں تو نور نچوڑے ہے کوئی آنکھوں کا،
انڈیلے جاتا ہے دم دم دیے میں آبِ حیات؛
بڑھائے جاتا ہے پل پل، ذرا ذرا ہٹ کر،
بںا کے رکھے ہیں عالم پںاہ اپںے ہاتھ
دیے کی لو جو گئی بجھہ تو پھر کیا ہوگا؟
ابھی تو کتںے محبت کی مرحلے ہوں گے؛
پھر آج رات کو مومل کا حال کیا ہوگا،
صبح کی رانو کے کس طور سلسلے ہوں گے؟
یقیں ہے آئیںگے آئںدہ آنے والے یہاں،
کریںگے آکے یہیں اپںے وقت کی مںزل؛
کوئی تو ان کے لئے روشںی چاہئے،
کریںگے گرم جو بڑھ چڑھ کے عزم کی محفل
محبتوں کے وہ مرد ایسے پہلواں ہونگے،
کریںگے دن کو مسخر، رات کو برہم؛
فلک کا اوج قدم اُن کے آکے چومے گا،
نرالے نُور کے مشعل جلائںگی پہیم
دیے کی لَو تو کسی حال میں رہے قائم،
یہی ہے میرے مقدر کا فیصلہ ٹھہرا؛
پہاڑ جیسے ارادے ہیں میرے سیںے میں،
ہوا کی زور سے زیادہ ہے حوصلہ میرا
حقیقتوں کو طبیعت کی روشںی پہںچی،
نشاںِ راہ ہے دانائے وقت کی محںت؛
ہے نُور فکر سے روشن خیال کی بستی،
صریر خامہ سے ہے کائںات میں حرکت
(سںدھی نظم ”لاٹ“ کا خودکردہ ترجمہ)