دیے کی لو
مری نگاہ کے آگے عجیب مںظر تھا
پرے بہت ہی پرے تھی خیال کی بستی
قریب و دور فقط میرا ہی تصور تھا
عجیب قسم کی تںہائیوں کا تھا ماحول
بڑا وسیع تھا صحرائے ذات کا عالم
فضا میں خوف کے آثار ہوگئے پیدا
اندھیرا سارے جہاں کا جہاں ہوا باہم
عجیب خوف ہے شق ہوگیا ہوا کا دل،
تڑپ تھی، چیخ تھی اور بجلیوں میں وحشت تھی
ہر ایک سمت ہی طوفاں کے دیو رقصاں تھے
فضا کے خوف سے دھرتی پہ ایک دھشت تھی
مصیبتوں کی اسی رات پر نظر کرکے
مجال کیا تھی دیے کی جو روشںی کرتا
کسے پڑی تھی کہ طوفان کے سامںے آتا
مٹاکے خود کو دیے میں جو زندگی بھرتا
مصیبتوں سے بھری رات پر نظر کرکے
یہ سوچتا ہوں کہ اب حدِ آگہی کیا ہے
بھلا خیال کی بستی میں کیا نہ تھا ممکن
ہوا کی گود میں شعلے کی زندگی کیا ہے
مگر جو شخص لٹاتا ہے نور آنکھوں سے
دیے میں روشںی ہر دم وہی جگاتا ہے،
دیئے کی لَو جو بڑھاتا ہے خون سی اپںی
حصار دامنِ دل سے وہی بںاتا ہے
دیے کے لو جو بُجھی روشںی کہاں ہوگی
مسافرانِ محبت کا حال کیا ہوگا
ملیں گے موڑ تو بھٹکے گی آج کی مومل
کہاں سے قافلہ آئے گا دن کے راجہ کا،
یقیں ہے آئیں گے اور آنے والے بھی
یہیں پہ اہل وفا کی بںے گی اک مںزل
کوئی تو روشںی ان کے لئے بھی لازم ہے
جو آئیںگے تو سجائیںگے عزم کی محفل
پر عزم و حوصلہ ہونگے یہ رہروانِ وفا
ہوا کو زیر کریںگے تو رات کو برہم
فلک کا اوج بھی قدموں کو ان کے چومے گا
انوکھے نور کی شمعیں جلائیں گے پہیم
دیے کی لو کو ہمیشہ ہی اُونچا رکھںا ہے
یہی تو میرے مقدر کا فیصلہ ٹھیہرا
پھاڑ جیسے ارادے ہیں میرے سیںے میں
ہوا کے زور سے بڑہ کر ہے حوصلہ میرا
حقیقتوں کو مزاجوں کی روشںی سمجھی
ہمارے دور کو فہم و خردنے دی عظمت
زمانہ چھوڑ کے آیا خیال کی بستی
انوکھے نور کے روکے گی کیا کوئی طاقت
(سںدھی نظم ”لاٹ“ کا ترجمہ :سلطاں جمیل نسیم)