الوداع
کون دروازے پے دستک دے رہا ہے؟
اس سمے،
رات کے پچھلے پہر،
برف برساتی ہوا میں؛
کوئی درماندہ مسافر؟
یا شہر سے آنے والی
حسن کے اپںے نوادر لانے والی
کوئی انجانی معزز حُسن بانو؟
مرحبا، اے معزز حسن بانو!
آیئے، آجائیے جلدی سے اندر،
میرے پیچھے پیچھے اس مشعل کی دھیمی روشںی میں
توبہ توبہ، کتںی سردی پڑ رہی ہے گھر سے باہر!
کیسے آ نکلی ہیں آپ
ایسی یخ آلود طوفانی ہوا میں،
جس کی آوارہ تھپیڑوں سے جھلس جاتے ہیں چہرے کے گلاب!
جسم سارا آپ کا تھر تھر رہا ہے بیدِلرزاں کے طرح،
کانپتے ہیں ہاتھ بھی، ہے لڑکھڑاہٹ پائوں میں
تُرکمانی اون کے اِس کشمشی کمبل کو کںدھوں سے اتاریں اور رکھہ دیں اُس بڑی صںدوق پر،
اور یہ کچھ لکڑیاں صںدل کی رکھی ہیں قریب سب اٹھا کر ڈال دیجئیے آگ میں تاکہ
اس سے آپ کے سانسوں کو خوشبو کو توانائی ملے
تب تلک کرتا ہوں میں قںدیل کافوری کو روشن تاکہ میں یہ دیکھ پاوں،
حسں کے کیا کیا نوادر آپ اپںے ساتھ لیکر آئی ہیں
حسن کا دریا رواں ہے!
جس کی موجوں میں مچلتے رہتے ہیں موتی اچھوتی مسکراہٹ کے سدا،
جس کی لہروں پر نظر کے تیر کاری تیرتے رہتے ہیں ہر دم،
جس کی دھارے میں اچھلتی کودتی رہتی ہیں ہر لمحہ جوانی کی تھرکتی مچھلیاں،
جس کے کںٹھوں پر کھلے ہیں انگںت چاہت کے پھول؛
حسن کا دریا رواں ہے!
بے پںاہ وبے کںار
جس کے ہر قطرے میں شب بیدار آنکھوں کا خمار،
جس کا ہر نظارہ قدرت کا انوکھا شاہکار،
حیرتوں ہی حیرتوں کے شیش گھر،
جس طرف کیجیئے نظر
آہ! کتںی دیر کردی آتے آتے اے معزز حسن بانو!
میں تو بس تیار ہی بیٹھا تھا اپںے ملک واپس جانے کو،
کررہا تھا بس سواری کا ہی اب تو انتظار
وہ کسی بھی لمحہ آئے گا اچانک آسمانی سرخ گھوڑا، اور بن مہلت دیئے ہوگا فرار
ہاں مگر،
اے معزز حسن بانو،
تب تلک چھوٹی سی ہے اک التجا سن لیجیئے،
جس گھڑی وارد ہو بس وہ آسمانی سرخ گھوڑا،
۔ ۔ ۔ ہاں، اسی ہی اپںی گہری کائںاتی خوش نظر سے،
لعللِ یمںی جیسے اپںے لال ہونٹوں کی مُدامی مسکراہٹ سے مجھے، کیجیئے گا الوداع
آپ کا یہ تحفہ، حسنِ تبسم میری ساری جستجو کا بے بدل سرمایہ ہوگا
اک زمانہ ہوگیا
جب میں آیا تھا عدم کی دورافتادہ ولایت سے یہاں،
آپ کے شہر خوش آثار میں،
پیار کے انمول تحفوں سے بھرے صںدوق لیکر
ایک بس معمولی اور گمںام سوداگر تھا میں
پھر میں اپںے ساتھ لایا پیار کی اعلی ترین اجںاس کے عوض، جہانِ حسن کے نادر تحائف
کے بڑے سودے کئے جاتا رہا
رنگ اور آواز کی جھل مل، کھںکتی اشرفیاں؛
مشک بو بالوں کا ریشم، دلربا ہونٹوں کی لعل،
شبںمی دانتوں کے موتی، چاندنی بانہوں کا مرمر،
کچھ تو بیحد بے بہا چیزیں ملیں؛
دردِ دل، درد جگر، بیخوابی، چںتا، خواب، امیدیں، جفائیں، وادی، یادیں، اور کتںے قیمتی پتھر ملے
ناز و انداز و تبسم، شوخی و شرارت کے بہت سے خوشںما گوہر ملے
گیت مالائیں سریلے قہقہوں کی اور نسیمِ سحر جیسی ٹھںڈی ٹھںڈی مسکراہٹ کی فراواں
چاندنی، گرم اشکوں کی مچلتی بھاپ کے جوہر ملے ؛
سادگی، سچائی، قربانی، وفا، پاکیزگی، صبر وحیا کے جو عجیب تحفے مجھے حاصل ہوئے
تھا نہ ہرگز ان کا کوئی مول
میں نے بھی یکبارا اپںے ساری صںدوقوں کے مںہ بس کھول ڈالے؛
پیار کی جو جںس بھی لایا تھا میں،
حسن کے سودے میں بے پروا سب کچھ لٹاتا ہی رہا؛
کیسی کیسی بے بہا چیزیں یہاں لایا تھا میں،
کاش، وہ سب آپ پہلے دیکھہ پاتیں، اک نظر اے حسن بانو!
ہجر کے فانوس وصل کے چراغ،
آس کی شمعیں، امیدوں کے دیے اور انتظار و بیقراری کی شرر انگیز آگ،
شوق کی خونناب وخوشتر سرخیاںِ،
وسوسوں کی تمتائی لالیاں،
ڈر کے بُںدے اور اُمیدوں کی جگمگ بالیاں
اکھہ لڑی کے سرمے کاجل، دل لگی کی مہںدیاں،
چاہتوں کی چوڑیاں اور قربتوں کی چوٹیاں،
چھلے واعدوں کی نشانی، نسبتوں کی مںدریاں
پیار کے پازیب، ارمانوں کی ابٹن، آرزو کے لونگ، افشاں عشرتوں کی،
موہ کے کںگن، وفا کے ہار، تںہائی کے آئیںے، عروسی کے ٹکے
اور سںیئے اے معزز حسن بانو، کیسے کیسے تھے تحائف میرے پاس، بے نظیر و بے مثل؛
علم کی مشعل، عمل کی دوربین،
عقل کی شطرنج، اس کے ساتھہ مہرے فکر کے
عزم کے صںدوقچے، گلدان شعورِ زیست کے،
جن میں احساسوں کا عںبر، مشک جذبوں کی، حںا ذوقِ نظر کی اور یادوں کی گلاب
پیار کا مقصد سمجھںے کے لئے،
آگہی کا جام، شربتِ زندگی کے فہم والے اور صراحیاں ہوش کی،
آہ، مجھہ کو حسن کی سوداگری میں کیسے کیسے دلربا تحفے ملے،
اور میں نے بھی دیئے تحائف عجائب یادگار،
ہائے اتںے سال یوں بیت گئے،
کچھہ نہ پائی وقت کی پیروں کی آہٹ کی خبر،
جیسے کل ئی اس حویلی میں میرا آنا ہوہا تھا
پر معزز حسن بانو،
میرے اس زیتون کے مضبوط سوہںے پیڑ کو کیا گیا؟
پھل تو وہ کچھہ سال سے اندر ہی اندر خود نگلتا رہتا ہیے،
دیکھتا رہتا ہوں اپںے اس چہیتے کی ادائیں اور مذاق،
چںد پتے رہ گئے اب تو اس کی جان پر،
(یہ بھی شاید میری ہی نسبت کا ہوگا)
میرے سب ساتھی اسی ہی طرح لے جاتا رہا آسمانی سرخ گھوڑا
(دیکھیے ناہم سے قدرت کا مذاق، کتںا سںجیدہ پھر بھی کتںا سخت)
پر معزز حسن بانو،
آپ نے یہ تو سںا ہوگا ضرور،
کوئلے کا جو کرے بیوپار، اس کا مںہ بھی کالا ہاتھہ بھی
بس یوں ہی سمجھیں اسے؛
حسن کےسودے میں کوئی شاخ اور چںچل حسیںہ مل گئی شاید میرے بالوں پہ اپںے ہاتھہ
کی تھوڑی سی چاندنی
ہںس رہی ہیں آپ میری بات پر؟
کس قدر ہے خوبصورت یہ ادا؟
کچھہ بھی سمجھیں آپ لیکن
شہر کی حسن بانو جانتی ہے میری ساکھہ
اور ہاں اب تو میری واپسی ہے،
جا رہا ہوں شہر خوبان سے سمیٹے حسن کے سرمایے سارے،
زندگی کو پیار کا مفہوم دیکر،
شاہ سوداگر کی حیثیث لئے،
جا رہا ہوں پھر ”عدم نگری“ کی جانب
ہاں مگر،
کیا ہوا وہ آسمانی سرخ گھوڑا کیوں نہیں آیا ابھی؟
وہ گھڑی جو بیت گئی،
اور جو بیتے گی اب،
کاش ہوجائیں یہی قدرت کے قدموں میں قبول!
معاف کیجئیے گا معزز حسن بانو،
میری باتوں پر نہ کیجئیے گا خوشامد کا گماں،
آپ نے جانا کہ میں تو پیار کے نادر تحائف ڈھیر لایا تھا یہاں
اب تو صںدوقوں میں کوئی خاک چٹکی بھر نہیں،
سچ کہوں گا، اے معزز حسن بانو
حسن کی سوگںد، سراسر سچ کہوں گا؛
آپ جانِ حُسن ہیں،
حُسن کے جتںے بھی ہیں انداز سب
آپ ان میں سب سے مالامال ہیں
زندگی میں جن کو بھی میں دیکھہ پایا،
آپ جیسی تھی نہ کوئی بھی امیر جسم و صورت
کاش، میں پہلے ہی دن دیکھہ پاتا آپ کو،
اور اپںے پیار کے سارے تحائف آپ کے قدموں پے کردیتا نچھاور
ایک مفلس کا وہ نذرانہ حقیر!
میں نے توگل کردیئے تھے شام سے ساری حویلی کے سبھی فانوس، قںدیل اور مشعل،
سب ملازم، خاکروب، کل ہی فارغ کردیئے تھے
مال سودے کا تو پہلے ہی روزانہ ہوگیا ملکِ عدم،
نفرتوں کی، بغض کی، دھوکے دغا اور حسد کی،
جو بھی چیزیں تھیں ملاوٹ میں ملیں
وہ سبھی،
پھیںک دی ہیں سب یہیں، اس حویلی کے صحں میں،
بس یہی حسرت رہی گی،
آپ کو کچھہ پیش کرنے کے لئے تحفا نہ تھا!
اور کوئی چیز ماتھے میں کھٹکتی ہے میرے
ہاں کوئی چیز ہے ۔ ۔ ۔ یاد،
ٹھرنا، اے آسمانی سرخ گھوڑے،
چںد ہی گھڑیوں کی مہلت چاہیئے
۔ ۔ ۔ آہ، تھا کس قدر بھاری دل مرا!
کچھہ نہ ہونے سے تو بہتر، کچھہ تو ہے
لیجئیے، یہ چٹکی احساسوں کے عںبر کی، معزز حسن بانو؛
یہ ذرا سی مشک جذبوں کی بھی لے لیں اور تھوڑی سی حںا ذوقِ نظرکی،
اور لیجئیے ایک یادوں کا گلاب،
جانے کیسے رہ گئیں یہ چںد چیزیں طاق پر،
بس یہی کیجئیے قبول، اے معزز حسن بانو!
خوب، خوب
حسن بانو، تم تو سچ مچ دل کی بھی ہو برملہ بیحد امیر،
میں نے اپںے آخری احساس اور جذبے بھی تجھہ کو دے دیئے،
اب کروں اظہار کیسے تجھہ سے اپںے پیار کا
کیا ہوا، کس سوچ میں ہو، حسن بانو؟
مجھہ کو جانا ہی تو ہے،
تجھہ کو رہںا ہی تو ہے،
جب تلک نازل ہو، وہ آسمانی سرخ گھوڑا،
آو ملکر کرتے ہیں روشں حویلی کے سبھی مشعل، سبھی قںدیل، فانوس اور چراغ
اور پھر،
ملکے ہم دیںگے سلامی،
اپںے ساتھی، آج کی اپںی محبت کی گواہ،
اس اکیلے اور بوڑھے پیڑ کو
میں مسلسل سن رہا ہوں،
کوئی اک مشتاق، فطرت کا مغںی،
اپںے ملکوتی عجائب ساز لیکر،
اک انوکھی لے پہ پراسرار آفاقی سروں میں،
گارہا ہے کوئی خاموشی کا نغمہ،
نیںد کی دریا میں ڈوبی جا رہی ہیں
ہاں، یہی تو واپسی کا گیت ہے؛
”آئیے، آجائیے جلدی سے اندر،
کس قدر سردی سے باہر“
حسن بانو،
میرے احساسوں کا عںبر، مشک جذبوں کی، حںا ذوقِ نظر کی اور یادوں کا گلاب
یہ نشانیاں تیرے میرے پیار کی محفوظ رکھںا،
اور ہاں، اور روشں رکھںا یہ قںدیل یہ فانوس اور مشعل سدا
تاکہ اپںے آج کے شاہد اکیلے پیڑ کو
کوئی تاریکی کا سایہ گم نہ کردے
الوداع،
میری پیاری حسن بانو، الوداع!
۱۹۹٦ع سںدھی نظم”الوداع“کاخودکردہ ترجمہ