انقلاب کی سرحد
خدا کی راہ میں انصاف بھی کچلتا رہا
فلک نے ظلم کا یہ اہتمام دیکھا تھا
قضا کو دین کی خاطر یزید بںںںا پڑا
ہمیشہ جھوٹ چلا جبر کے سہارے سے
دبایا سچ کو بھی تقدیر کے حوالے سے
چلا ہے رات کا الزام چاند تاروں سے
عجیب مذاق اندھیروں کا ہے اجالوں سے
جو زہر پی گیا سقراط ایک سچ کیلیئے
بںا وہ پھولوں پہ شبںم یا نور تاروں کا
حیات جس کی طلب میں رہی ہے سرگرداں
وہی تو وقت کے دل کا سرور ٹھہرا تھا
گلے کا طوق بدلتا رہا زمانے میں
کرو حساب جو صدیوں کا خود ہی دیکھو گے
صلیب میں سے بھی آئی بھار کی خوشبو
عجیب ہوتی ہے یہ انقلاب کی صورت
ہر لمحہ زمانے کی زندگی ہے مگر
ہزاروں سال بھی تاریخ میں ہیں کھوئے ہوئے
جہاں جہاں بھی جھکا حق کے سامںے باطل
افق پہ چمکی وہاں انقلاب کی سرخی
کسے خبر ہے کہاں آفتاب کی سرحد
بتائے کون کہ کیا ہوگی خواب کی سرحد
کروڑوں ذہن ہیں اور اک کتاب کی سرحد
وسیع ہے آج بھی اک انقلاب کی سرحد
(سںدھی نظم ”انقلاب کی سرحد“ کا ترجمہ : سلطان جمیل نسیم)