کاک محل
جسمیں مومل کی طرح نازکںاں مقصد زیست
دور سے دل کو لبھاتا ہے قریب آتا نہیں
کون ہے پار کرے جو رہ مشکل آگیں
جو بڑھے آگے وہی کھائے فریب پہیم
جادونگری سے بھلا کون بچے کس کی مجال
کچھہ کو نومیدی ڈراتی ہے ہلاکر جبڑے
دیکھہ کر موت کی ڈائن کئی ہوتے ہیں نڈھال
روز امید نئے ڈھںگ سے کرکے سںگھار
اپںی سج دھج سے لبھاتی ہے ہر دل کو
عارضی حسن میں کھوجاتے کتںے ہی جواں
ہو کے گمراہ بھلا دیتے ہیں وہ مںزل کو
کون ہے جو راہ کو کئے کرکے جو پائے مومل
جان جادو سے بھلا کوئی چھڑائے تو سہی
دیکھہ کر رقص حسیںاوں کا لاہوتی کوئی
بے نیازانہ قدم کوئی بڑھائے تو سہی
ہاں جو رانا ہیں وہی پائیں گے مںزل اپںی
جادونگری کے طلسمات بکھر ہی جائیں گے،
عقل اور عزم کے رانا جو بڑھے ہیں آگے
اپںے حالات کی مومل کو وہی پائیں گے
مال وزر پر نہ جھکے، کاک سے روکے نہ گئے
اہل دل بڑھتے گئے، رقص کرکے تہہ و تاراج
آخر پھر شاہ بھٹائی کی مجھے یاد آئی
اپںی مومل سے ملاقات کی پھر دھوم ہے آج
(سںدھی نظم ”کاک محل“ کا ترجمہ : محسن بھوپالی)