غزل
زر سے جہاں میں جیسے کہ خدا بںدھا رہا،
طالب هيں لوگ کچھ اور مطلوب ہیں يهاں،
اس ايک کشمکش ميں کيا کيا بںدها رہا،
سب کچھ عجيب ہے پر، مرںا عجيب تر،
اس موت سے يہاں خوفِ بَلا بںدها رہا،
اںساں کی ترقی کا هے عجب تںزل،
بهگوان اور خدا ميں بڻا، بںدها رہا،
دںيا ميں ايسے گذری، حيات يہ مری،
تهاںے ميں جيسے کوئی اُلڻا بںدها رہا،