پیشن گوئی
میں بُھلادوں تجھ کو،
آنکهوں کی بينائی کورکھ دوں
ريل کی پٹڑی پر_
اور سُلادوں اس عشق کو
کہيں راستے ميں
اور ہو جاؤں اس دنيا کا
يہ مڻهی بهر سانسيں
جو جبر ہيں
ايک ايک کرکے پهينک دوں ساری
اور گنتی کروں تاروں کی
اس غلامی کی حالت کو
مان لوں اپنا مقدر
اور چهوڑ دوں اس نفسيات کو
ہيجانی حالت ميں
مگر يه سچ ہے کہ
يه عشق بدلتے حالات کی
پيشن گوئی ہے
کوئي ابہام تو نہيں جاناں!!!