ہم غلامی کے عادی کيوں هيں؟
ايک دوسرے کو سوچ رہے ہيں
اور ہمارا معاشرہ ايک خوف بن گيا ہے_
ہم سوجاتے ہيں
خوف میں لپڻی ہوئی نيند سے
ہم بار بار جاگ جاتے ہيں
ہمارا درد بہت اذيتناک ہے،
ہم ميں سے بہت سی لوگ
اب تک ظلم کرنے پر مجبور ہيں
اور ہماری زندگی کی محبتيں
کافی بے چين ہوا کرتی ہيں
ہم غلامی کی عادی کيوں ہيں
ہماری بڑی اکثريت يہ نہيں جانتی
ہم زندگی کی پردے ميں
موت کي اذيتيں جهيل رہے ہيں_
اور ہم سے ہمدردی کرنے والے
خود بهی غلام ہورہے ہيں
وه صرف کہتے ہيں
جہاں غذا مہنگی ہوتی ہی
وه اپنا اطمينان ڈہونڈ رہے ہوتے ہيں
اور اس طرح ہم ايک دوسرے کے
آگے پيچهے ہوجاتے ہيں
ہم فطرت کی کمزور نسل کی طرح
ہميشہ خوف ميں رہتے ہيں_