مڻی اور عورت
اور ميں حيران ره جاتا ہوں
مغرب اس حيرانی سے بهت آگے نکل چکا ہے
ميں اپنے سارے ادراک اس کی آنکهوں ميں کهوديتا ہوں
اور ان کے ادراک بلندياں ڈهوڈندرہے ہيں
وه کہتے ہيں
ہو سکتا ہے
يه بوہڑ کی چھاؤں اس کی آنکهيں ہوں
ہو سکتا ہے کہ
يه بادل اس کی ايڑيوں سے تعلق رکهتے ہوں
ہوسکتا ہے
اس کے پير فطرت کا آنگن ہوں
ہو سکتا ہے کہ
اس کے بدن کی خوشبو
گو تم کے دهيان کو کاٹ رہی ہو
وه تخليق کرتی ہے
ہان ميرا مذهب
مڻي اور عورت ہے
ميں اس تہذيب کی گری ہوئی ايک سانس ہوں
عورت جو اک ادراک ہے
جنس کيوں بن رہی ہے
جسم روحوں کا عطيه ہے
يا حياتياتی ارتقا کا جبر ؟
وقت جنگلی کتے کی طرح
کوئی آقا نهيں رکھتا
يہ سچ ہے کہ
سب کچھ روانی ہے
تم کيوں جامد عقل تلاش کررہے ہو
ہان! يہ انگلياں
گرتی ہوئی نظر کی طرح هيں
اس کے پيروں کی آہٹ کائنات کی طرح ہے
وه ڈوبتے ہوئے سورج کی طرح
پر کشش اور حسين ہے
ہان! وه ايشيا کي چهاتی کی طرح
گرم اور مظلوم ہے
ہاں! مگر يه تهذيب
بيگانگی کے سوا کچھ بهی نهيں !!!