آفتاب میمن……… ایک حساس اور دردمند قلمکار
لیکن بعض انسان حالات کے ساتھ سمجھوتہ کے باوجود بغاوت اور انقلاب کے اڑن کھٹولے پر سوار رہتے ہیں اور اکثر میں محیر العقول کارنامے سرانجام دیتے ہیں۔ ایسی ایک شخصیت کا نام آفتاب میمن ہے۔
آفتاب میمن پیشے کے لحاظ سے “بیورو کریٹ” اور ذہنی و جسمانی طور پر “انقلابی” ہیں۔ وہ سماج کے دھارے میں بہہ کر جانور کی طرح زندگی گذارنے کے قائل نہیں ہیں۔ ان کا دل پاکستان اور دنیا بھر کے غریب، مفلوک الحال، پسے ہوئے انسانوں کے ساتھ دھڑکتا ہےا ور وہ حالات کو بدلنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں وہ زبان اور تحریر کے ذریعے اکثر و بیشتر کھل کر اس کا اظہار بھی کرتے ہیں اور سچ بیان کرنے سے کبھی باز نہیں آتے، خواہ اس کی کوئی بھی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔
آفتاب میمن نے 1990ء کی دہائی میں سندھی اخبار “عوامی آواز” کے لیے چونکا دینے والے مضامین اور کالم تحریر کیے۔ “انقلابی آفتاب میمن” کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ لیفٹ سے ان کے لگاؤ اور بائیں بازو سے دلچسپی کے سبب بعض دوست انہیں کمیونسٹ بھی کہتے ہیں۔ لیکن وہ ایک سچے پکے مسلمان ہیں اور اپنی تحریروں سے حضرت ابوذر غفاری کے پیروکار نظر آتے ہیں جس کا دل غریبوں کے لیے دھڑکتا ہے۔
آفتاب میمن اپنے کالموں مین بیک وقت ایک عمدہ کہانی اور تاریخ نویس بھی نظر آتے ہیں اور ان کی تحریروں میں سماجی ناانصافیوں کے خلاف بغاوت کا بارود بھی بھرا نظر آتا ہے۔ انہوں نے صرف تاریخی واقعات ہی بیان نہیں کیے بلکہ ان کے پس منظر اور پیش منظر سے بھی اپنے قارئین کو آگاہ کیا ہے۔ دنیا پناما کے سابق “مرد آھن” نوریگا کو آمر کے طور پر جانتی ہے یا امریکہ نے اس کے بارے میں یہی باور کرایا ہے۔ نوریگا پر یہ الزام تھا کہ اس نے کیوبا جاکر صدر کا سترو سے ملاقات کی اور نوریگا کی کولمبیا کے منشیات فروشوں سے صلح کرائی گئی۔ ان الزامات کے تحت امریکہ نے نوریگا کو گرفتار کیا اور 1981ء سے 1986ء تک منشیات فروشی میں اس کے کردار کی بنا پر اسے 20 سال قید اور دس لاکھ ڈالر جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔ حالانکہ 1985ء میں جب نوریگا امریکہ گیا تو اس کی سرکاری طور پر بڑی آؤ بھگت اور مہمانداری کی گئی تھی۔ نوریگا 1950ء کی دہائی سے امریکہ سی آئی اے کے رابطے میں تھا اور فوج میں اپنےساتھیوں کی مخبری کرتا تھا۔ وہ سی آئی اے کے جاسوسی نظام کا حصہ تھا جس کا معاوضہ اسے ایک لاکھ ڈالر سالانہ ملتا تھا۔ اس دور میں جارج بش سی آئی اے کے ڈائریکٹر اور رچرڈ نکسن امریکہ کے صدر تھے ان دونوں کو نوریگا کی حرکتوں اور منشیات فروشوں سے رابطوں کا علم تھا۔ انہوں نے ہی بعد ازاں اسے پناما کا صدر بنوایا اور اس وقت تک سرپرستی کرتے رہے جب تک کہ وہ پناما کے عوام کے حقوق کا سوداگر بنارہا۔ لیکن عالمی اور پناما کے عوامی دباؤ کے باعث جنوری 1990ء سے جب پانامہ کینال میں جہاز رانی کے حقوق اور اس کی رائلٹی پناما کے عوام کو دینے کا معاہدہ ہوا تو امریکہ یکدم نوریگا کے خلاف ہوگیا۔ سونے کی کان ہاتھ سے نکلتی دیکھ کر 30 سال پرانا ایجنٹ نوریگا اچانک معتوب ہوگیا۔ امریکہ نے 16 ہزار فوج پانامہ بھیج کر نوریگا کو قیدی بنالیا اور دنیا بھر کے ایجنٹ حکمرانوں کو یہ پیغام دے دیا کہ آقا کی مرضی کے خلاف چلنے کی کیا سزا ہوتی ہے؟
آفتاب میمن اپنے کالموں اور مضامین میں حقیقت کے بہت قریب نظر آتے ہیں اور بے باکی سے سچ بیان کرنے میں کوئی خوف محسوس نہیں کرتے۔ افریکی رہنما نیلسن منڈیلا کی طویل قید سے رہائی پر انہوں نے لکھا کہ یہ رنگ و نسل اور مذہب کے تفریق کے خلاف لڑنے والے ہر انسان کی آزادی ہے۔
جنوبی کوریا کے سابق صدر “روہ تائی وو” کی گرفتاری پر 5 فروری 1996ء کو آفتاب میمن کا ایک کالم زیر عنوان “ایک قصاب دوسرا چور اور تیسرا قانون سے بالاتر” عوامی آواز میں شائع ہوا۔ جنوبی کوریا کے سابق صدر کو 15 ارب روپے کا حساب کتاب نہ دینے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ موصوف نے 15 ارب روپے کی رقم 35 تاجروں اور صنعتکاروں سے پارٹی فنڈ کے نام پر وصول کی تھی۔ تائی ووکو اس کیس میں گرفتار کرکے بدعنوانی کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔ اس بات کی بھی تحقیقات کی گئی کہ جن 35 تاجروں، صنعتکاروں نے 15 ارب روپے دیئے انہوں نے اس کے عوض کیا مراعات اور فوائد حاصل کئے۔ ثابت ہوا کہ ان لوگوں نے صدر کی چھتری تلے بینکوں سے رعایتی قرضے حاصل کئےتھے اور ایک عام ڈرائیور دنیا کے ممتاز صنعتکاروں میں شمار ہونے لگا۔ اسی طرح دوسرا چن دوھواں بھی گرفتار ہوا جس پر 1980ء میں شہریوں پر گولی چلانے کا حکم دینے سمیت دیگر الزامات بھی تھے۔
آفتاب میمن نے مختلف قومی اور بین الاقوامی معاملات کو اپنے مضامین کو موضوع بنایا اور ان کی تفصیلات و پس منظر سے اپنے قارئین کو آگاہ کیا ہے۔ اس طرح انہیں “کرنٹ افیئرز” کا ماہر قلمکار کہا جاسکتا ہے۔ وہ قلم کونشتر بناکر بڑی بے رحمی سے حالات و واقعات کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں۔ حقائق کو آشکار کرتے ہیں لیکن اس فسوں کاری میں وہ غریب اور پسے ہوئے عوام الناس کو فراموش نہیں کرتے اور ظلم ناانصافی کا پردہ چاک کرنے میں کسی رعایت سے کام نہیں لیتے۔ وہ ایک سفاک سرجن کی طرح معاشرے کا آپریشن کرتے ہیں تاکہ ایک صحتمند سوسائٹی جنم پذیر ہو سکے۔
آفتاب میمن جیسے حساس اور دردمند دل رکھنے والے قلمکار قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ وہ بے خوف ہوکر برائیوں کی نشاندہی کرتے ہیں جو جہاد کی ایک شکل ہے۔ اپنے کالموں میں وہ اپنی والدہ محترمہ اور اپنی دھرتی سے بے پناہ محبت اور عشق کا اظہار بھی کرتے ہیں جیسا کہ ان کے ایک کالم “دیواور پریاں” میں بیان کیا گیا ہے۔
تاریخ کے طالب علموں اور کرنٹ افیئرز (حالات حاضرہ) سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ان کے کالموں کا مجموعہ ایک معلوماتی اور قیمتی دستاویز ثابت ہوگا۔
مختار عاقل
چیف ایڈیٹر
روزنامہ جرأت کراچی