اے عشق! تیرے واسطے کیا کیا نہ کررہا ہوں،
مر مر کے جی رہا ہوں، جی جی کے مر رہا ہوں!
یہ معجزہ ہے میری اس پاک دل لگی کا،
جتنا ہی ڈوبتا ہوں اُتنا اُبھر رہا ہوں!
دریا تھا میں تو پہلے اب درد کی ضرب سے،
کوزے میں کیسے دیکھو اب میں اتر رہا ہوں!
سائل ستم تھا جس کو کس نے نہیں دیا کچھ،
میں کر کے پیشِ خدمت اپنا جگر رہا ہوں!
جب سِرفروش سے وہ اک دم بني ستمگر،
اب ان کے سائے سےبھی "پیرل" میں ڈر رہا ہوں۔
**