پتھر کہا تو پاؤں سے سَر تک پگھل گئی،
یہ بات میرے منہ سے بھی کیسے نکل گئی۔
پوری طرح تو تارےبھی نکلے نہ تھے ابھی،
جو رات اب نہ ڈھلنی تھی کیسے وہ ڈھل گئی۔
تعجب ہے اُن کی نظر نے مجھ کو کیا اسیر،
گر کر میری نظر سے وہ کیسے سنبھل گئی۔
پہچانے آج جو بھی نہ "پیرل" کروں گا کیا،
تب تو پرائے دیس میں یہ جان جل گئی۔
**