اپنی نگاہِ ناز کا نقشہ بدل نہ دو،
جو چاند کا بھی چاند ہے، چہرہ بدل نہ دو۔
میں نے بھی تو پہاڑ جنگل دوستو مارے،
یہ قیس کا ملا ہوا رتبہ بدل نہ دو۔
لٹکایا خود کو میں نے کہیں تیرا گھر نہ ہو،
جو سر کے سر کیا ہے وہ سجدہ بدل نہ دو۔
میں نے تو خود چراغ ہتھیلی پہ ہے رکھا،
جس طرف سے بھی آئے تو جھونکا بدل نہ دو۔
شیشے کی طرح "پیرل" ہر دم رہا شفاف،
پردہ ہے تو نفس پہ، پردہ بدل نہ دو۔
**