حاضر ہوں میں مریض مسیحا مگر نہیں،
بس آج اس پرندے کو اُڑنے کے پَر نہیں!
کس کا گلا میں گھونٹ دوں اپنا یا غیر کا،
کل ہم سفر جو تھا آج وہ ہم سفر نہیں!
ای ہم نشینو! خوامخواہ کرتے ہو بحث کیوں؟
وہ کون دل کا مارا ہے جو در بہ در نہیں!
"پیرل" جُلوس کتنے تو وہ ہوگئے اِدھر اُدھر،
میرے ھئے ہی غم کبهي يه منتشر نہیں!
**