ایک فرشتہ جیسے انسان کی کتھا
- ابوبکر شیخ
تپتی اور خاموش دوپہروں میں جب کوئل بھی نہیں گاتی، میں امی کی گود میں سر رکھ کر لیٹا ہوتا تو امی آسمان سے آتے ہوئے فرشتوں کے متعلق باتیں سُناتی کہ، وہ اپنے ساتھ رحمتیں اور نوازشیں لیکر زمین پر آتے ہیں، میری امی نےکبھی کتابوں کا مطالع نہیں کیا، مطالع اسلئے نہیں کیا کہ وہ پڑھی لکھی نہیں تھی، ان دوپہروں میں امی کی شیرین باتیں سُن کر میری آنکھوں میں نیند بھر آتی اور میں اُس کی گود میں سوجاتا۔ جب بڑا ہوا تو "فرشتوں" کا لفظ جب بھی یاد پڑتا تو میں ڈھوںڈنے لگتا کہ کہیں کسی روپ میں دکھہ جائے۔۔پر دکھا نہیں۔۔کچھ لوگوں کے متعلق سُنا کہ فرشتوں جیسے ہیں۔۔پر اُن سے ملنا نہ ہوا۔۔پھر ایک دوست نے میر غُلام محمد تالپُور کا ذکر کیا جس کی کوئی اولاد نہیں تھی، پر سارے غریب بچوں کو وہ اپنی اولاد سمجھتا تھا، بغیر کسی تفریق کے، ویسے بھی اولاد میں کوئی بھی تفریق نہیں کرتا۔
بدین سے 27 کلومیٹر مشرق میں ایک چھوٹا سا شہر ہے "ٹنڈوباگو" ، عجیب سا شہر ہے، جس جگہ کے متعلق پوچھو تو اُس جگہ سے ایک کہانی وابستہ ہے، شہر کے بیچوں بیچ جو نہر "باگو واہ" بہتی ہے اُس سے "میر باگو اور سندھ رانی" کی مشہور عشقیہ داستان وابستہ ہے، پھر آنکھوں کی وہ مشہور فلاحی ہسپتال بھی ہے جو ابھی تک لاکھوں بے نُور آنکھوں کو نُور لوٹا چکی ہے۔ پھر 1940ع کا بنا "صاحب محل" بھی ہے، جسے دیکھنے کیلئے سارے پاکستان سے لوگ آتے ہیں۔
1920ع کا وہ زمانہ تھا جب سادگی اور غُربت ساتھ ساتھ چلتی تھی، گورے کا راج تھا، موھن جو دڑو کی کھدائی نہیں ہوئی تھی، "جاگیریں"، "خان بہادُر" ، "خان صاحب" کے لقب اور "آفرین نامے" بانٹنے کا زمانہ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب گندم کے چالیس کلو ایک روپے میں ملتے تھے، دیسی گھی چار آنے کلو کا بکتا۔کراچی کی "الفنسٹن اسٹریٹ" کا نام ابھی "زیب النسا اسٹریٹ" نہیں پڑا تھا۔
میں 1932ع میں بن کر مُکمل ہونے والے، "لارینس مدرسہ" کے اُس "ڈائننگ ہال" کے سامنے کھڑا تھا، یہ اپنے وقت میں بڑی خوبصورت عمارت رہی ہوگی، جہاں کسی زمانے میں وہ بچے کھانا کھاتے تھے، جن کے گھر کچے اور کھانے کیلئے روکھی روٹی بھی مشکل سے ملتی تھی، اور اس ہال کے جنوب میں "گبسن بورڈنگ ہائوس" کی وہ خستہ عمارت ہے جس میں دُور دراز علائقوں سے آئے ہوئے بچے یہاں شب و روز گذارتے تھے۔۔اب اس ہاسٹل میں کوئی نہیں رہتا، بس تنہائی رہتی ہے۔۔اور دیواریں آپس میں ماضی کے خوبصورت دنوں کی یادیں آپس میں بانٹتی ہیں۔۔۔یہ 'ڈائننگ ہال' اور 'گبسن ہاسٹل'، لارینس مدرسہ (جو اب "گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری اسکول" کے نام سے جانا جاتا ہے) کی اُس پُرشکوہ عمارت کا حصہ ہیں جو 1924ع میں بن کر مُکمل ہوا تھا۔۔اور اب تک 21,456 شاگرد اس اسکول سے تعلیم حاصل کر چُکے ہیں۔
میں اسکول کی اس تاریخی اور خوبصورت عُمارت کو دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ، کچھہ لوگ ہی تاریخ بُنتے ہیں، اگر وقت اپنی سنگدلی پر آئے اور اپنی کوکھ سے ایسے انسانوں کو جنم دینا چھوڑ دے تو شائد یہ دُنیا رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔
میر غلام محمد تالپور 'مانکانی میروں' کے خاندان سے تھے،ان کی جاگیر ہزاروں ایکرز پر پھیلی ہوئی تھی وہ یقینا ایک جاگیردار تھے، اُن کو 'خانبہادر' کا خطاب بھی ملا ہوا تھا، میں 'لارینس مدرسہ' کے موجودہ پرنسپل ڈاکٹر پروفیسر محمد اسماعیل میمن سے ملا، یہ صاحب خود بھی چند کتابوں کے مصنف ہیں۔ میر صاحب کے مُتعلق اُس نے جو باتیں کی اُن میں، میر صاحب کے متعلق احترام کی ایک خوشبُو تھی جو الفاظوں میں بستی تھی"۔میں نے اس اسکول سے تعلیم حاصل کی ہے اور آج میں اسی اسکول کا پرنسپل ہوں، یہ سب میر صاحب کی وجہ سے۔ وہ فرشتہ تھے، ایک ایسے فرشتہ جس نے اپنے لئے کبھی کچھ نہیں سوچا، جب بھی سوچا غریب اور ناداروں کیلئے سوچا۔ 1914ع کی پہلی جنگ عظیم میں، میر صاحب نے، ہند سرکار کو ایک لاکھ روپیہ قرض دیا تھا جو اُنہوں نے بعد میں واپس کئے اور اس عمل کے بدلہ میں میر صاحب کو خانبہادر کا خطاب دیا۔ 1920ع میں، میر صاحب نے، محمد صدیق 'مسافر' جو یہاں کا تھا اور سندھی زبان میں بہت ساری کتابوں کا مصنف بھی رہا وہ اُس زمانے میں حیدرآباد میں ٹیچر تھا۔ میر غلام محمد نے اُس کو اسکول کہ مُتعلق اپنے خیالات بتائے، اور اس طرح اسی برس ایک کرایہ کی جگہ میں 'لارینس مدرسہ' کی ابتدا ہوئی۔۔اور دھیرے دھیرے ہاسٹل اور اسکول کی بلڈنگ 1924ع میں بن کر مکمل ہوئی۔"
یہ وہ زمانہ تھا جب علی گڑھہ سے سر سید احمد خان نے 'تعلیمی تحریک' شروع کی تھی، جس کے زیراَثر کراچی میں 'سندھ مدرستہ السلام' چل رہا تھا۔
1932ع میں، گورنمنٹ سے ہائی اسکول کا درجہ حاصل کرنے والے اس اسکول کا پہلا 'مدرس اعلیٰ' مسٹر عبدالرحیم کرمتی بلوچ مقرر ہوا جو حیدرآباد میں وکیل تھا۔۔گبسن ہاسٹل کو مسلسل چلانے کیلئے میر صاحب نے، گوورنمنٹ کے Benevolent Fund میں تین لاکھ تراسی ہزار روپے ڈپازٹ کئے، جس سے ماہانہ ملنے والے پئسوں سے ہاسٹل کا خرچہ چلتا تھا۔'' "تو اب یہ ہاسٹل کیوں بند ہے۔؟" میں نے اسماعیل میمن صاحب سے پوچھا۔۔
"یہ 2004ع سے بند کردیا گیا ہے۔۔۔کیونکہ ان جمع پئسوں سے، ہر ماہ اتنے کم پئسے ملتے ہیں کہ ہاسٹل کو چلانا ممکن نہیں ہے۔۔" میرے سوال کے بدلے جو مُجھے جواب ملا، وہ انتہائی مایوس کُن تھا۔۔ جھٹ سے مجھے میر صاحب کی یاد آئی، میں نے اُسے کبھی نہیں دیکھا۔۔پر پھر بھی اُس کی بڑی یاد آئی۔
"1928ع میں ٹنڈوباگو کہ 'میرمحلہ' میں، میر صاحب نے، عورتوں کے اسکول کیلئے بلڈنگ بنواکر مکمل کی اور 'لوکلبورڈ' کے حوالہ کی۔۔مقامی طور پر کیونکہ ٹیچرز کا ملنا ممکن نہیں تھا، اسلئے دوسرے شہروں سے اہتمام کیا گیا اور اچھے الائونس اور طعام و قیام کی سہولیت دے کر اسکول میں مقرر کیا گیا۔".۔۔یہ اسکول ابھی تک اُس جگہ پر ہے، بس وہ بلڈنگ نہیں ہے جو میر صاحب نے بنوائی تھی، موجودہ گوورنمنٹ کی بنائی گئی عمارت میں 150 کے قریب بچیاں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔۔
میر صاحب کی نیکیوں کا سفر یہاں پر ختم نہیں ہوتا۔۔اُنہوں نے غریب ، بے سہارا اور اپاہج مریضوں کیلئے خاص وظیفے مقرر کئے تھے جو اُن کو مالی مدد کرتے۔لوگوں کی غُربت دیکھ کر 1922ع میں ''بولس شفاخانہ" کی بنیاد ڈالی، جہاں مُفت میں علاج ہوتا، اگر علاج طویل ہوجائے تو مریض کی رہائش، خوراک اور دوائوں کا مفت انتظام ہوتا۔۔
ڈاکٹر یعقوب مغل جو اس وقت "ڈاکٹر این۔اے۔بلوچ ہیریٹج ریسرچ سینٹر" کے ڈائریکٹر ہیں، بہت عرصہ تُرکی میں بھی رہے، مغل صاحب نے بھی یہاں سے تعلیم حاصل کی ہے، وہ لکھتے ہیں:"۔ وہ عظیم انسان تھا، غریبوں کا دُکھ اُن سے سہا نہیں جاتا تھا۔۔1931ع میں، اُنہوں نے، عورتوں کیلئے ہاسپٹل کھولی، اُس زمانے میں لیڈی ڈاکٹر ملنا ناممکن سا تھا، مگر میر صاحب نے بڑی جُستجو کے بعد ایک یورپین لیڈی ڈاکٹر، ہاسپیٹل میں مقرر ہوئی اور شفا کے دروازے کُھل گئے ساتھ میں وہ ہی میر صاحب کی دریا دلی اور شفقت کہ، علاج اور دوائیں مفت، رہائش اور کھانا بھی مُفت۔"
فقط یہ نہیں تھا، بہت سارے علم کے پیاسوں کو، میر صاحب نے انگلینڈ، دہلی، لاہور، ممبئی اور کراچی بھیجا، اُن کا سارا خرچہ میر صاحب نے بھرا، کوئی علم کا ڈاکٹر بن کر لوٹا، کوئی طب و جراحت کا سرٹیفکیٹ لے کر آیا، کوئی فاضل طب و جراحت کا اعزاز لے کر آیا۔ ہزاروں ایسے بڑے نام گنائے جا سکتے ہیں، جو ماضی و حال میں بڑے نامور نام ہیں اور وہ محض اسلئے ہیں، کہ میر صاحب تھا۔۔ایک اندازہ کریں اس ہائی اسکول کو 1990 ع میں اپ گریڈ کرکے ہائیر سیکنڈری کا درجہ دیا گیا، تب سے اب تک، انٹر پاس شاگردوں کی تعداد 4776 ہے۔
نتھومل موروانی جس نے اس اسکول میں بنیادی تعلیم حاصل کی، پھر یہاں آکر اُستاد ہوئے، وہ 1976 ع میں چھپی ایک کتاب میں تحریر کرتے ہیں کہ:"۔ آج تک اسکول کے سینکڑوں شاگردوں کو ہاسٹل میں مفت کھانا اور رہائش ملتی ہے، اس اسکول سے آج تک ہزاروں طالب علم، تعلیم حاصل کرکے نکلے ہیں، جن میں سے بہت سارے اہم عہدوں پر فائز ہیں، بہترین سیاستدان، عالم، ادیب، مُفکر، ڈاکٹر اور اُستاد اس اسکول کی دین ہیں۔"
میں ایک غُبار لیکر وہاں کے مقامی صحافی عُثمان راہوکڑو کے پاس پہنچا۔۔اور ان عمارتوں کی خستگی کے مُتعلق پوچھا، جواب جو ملا وہ آپ بھی پڑہ لیں۔" آپ خوشنصیب ہیں کہ یہ گرتی ہوئی دیواریں تو کم سے کم دیکھ رہے ہیں۔۔دس برسوں کے بعد شائد یہ بھی دیھکنے کو نہ ملیں، یہاں اثاثے سنبھالے نہیں جاتے بلکہ برباد کرنے کی روایت ہے۔۔۔ ایک زمانے میں اسکول میں بہت بڑی لائبرری تھی، اب وہاں کچھ بھی نہیں ہے۔۔میر صاحب اس وقت اگر آجائیں تو خُون کے آنسو روئیں گے۔ میر صاحب بڑے انسان تھے، بہت بڑے۔ یہ اسکول 2003 ع میں قومی لوک ورثہ کی لسٹ میں شامل ہے اور اس وقت جو اسکول کا نام ہے اُس میں میر صاحب کا نام تک شامل نہیں۔ میں اس بات کو مانتا ہوں کہ، میر غلام محمد نے اتنے سارے ادارے بنائے پر کسی پر بھی اپنا نام نہیں رکھا۔۔۔یہ اُس کا بڑکپن تھا پر اُس کے جانے کے بعد جب نیا نام رکھ رہے تھے تو کیا میر صاحب کا نام موزون نہیں تھا۔!!؟؟"
عُثمان راہوکڑو نے یہ بھی بتایا کہ، میر صاحب کا ایک گشتی شفاخانہ بھی تھا جو اونٹھوں اور بیل گاڑیوں پر ہوتا تھا اور دور دراز علائقوں میں جاکر علاج کی سہولیت فراہم کرتا، گائوں "ماچوری" اور "کھڈہرو" (ٹنڈوباگو) میں میر صاحب نے اسکول اور ہاسٹل بھی بنوائی تھی۔۔
میں نے ٹنڈوباگو میں اُس مسافرخانہ کی تلاش کی جو بھی میر صاحب نے بنوایا تھا کہ،مسافر آتے جاتے ہیں، دھوپ ہے، بارش اور سردیاں ہیں، چھوٹے چھوٹے بچے اور عورتیں کہاں جائیں گے لیکن اُس مسافرخانہ کا مُجھے کوئی نشان تک نہیں ملا۔
ٹنڈوباگو کی گلیوں میں، نہ جانے کتنی باتیں ہیں جو میر صاحب کی شفقت کے گیت گاتی ہیں۔ کہتے ہیں، میر صاحب کا ایک خادم تھا، جمع خاصخیلی، میر صاحب نے اُس کے بیٹے کو اُس کی خواہش پر تعلیم حاصل کرنے کیلئے دہلی بھیجا، وہ جب اپنی تعلیم مکمل کرکے آیا تو لوگوں نے دیکھا کہ، جمع کا بیٹا قادر بخش، لارینس مدرسہ کا ہیڈماسٹر بنا۔ میر صاحب کے متعلق مجھے جتنی معلومات ملتی گئی وہ حیران کردینے والی تھی۔ حیرت اور احترام کے بیج تھے جو میری روح کی زمین پر اُگتے جاتے۔
1928 ع میں ایک تعلیمی کانفرنس ہونی تھی، جی۔ایم۔سید صاحب نے ایک دعوت کا خط میر صاحب کو بھیجا تھا۔ جس کا جواب میر صاحب نے تحریر کیا تھا، یہ انتہائی مختصر خط ہے، مگر تاریخی حقائق کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔۔لکھتے ہیں:
" 20 جنوری کا آپ کا نوازش نامہ موصول ہوا، میں بہت دُکھی ہوں۔ اپنے جو وسائل ہیں وہ بروئے کار لاکر جو ہو سکتا ہے وہ کر رہا ہوں۔۔پر عام لوگوں کی جہالت، بیکاری اور غُربت دیکھ کر روپڑتا ہوں۔ میں نے اپنی ساری ملکیت ان لوگوں کیلئے وقف کردی ہے۔۔پر میں اکیلا آدمی کیا کرسکتا ہوں؟ سندھ کے جاگیردار، زمیندار، پیر اور مخدوموں کو غریبوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ طبیعت ناساز ہے اسلئے شرکت نہیں کر سکوں گا۔معافی کا طلبگار ہوں۔۔خدا آپ کو ان کوششوں میں کامیاب کرے۔ "
میر صاحب کی شخصیت میں اتنی وسعت ہے کہ یہ تحریر اُس کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ ایک تشنگی رہ جائے گی اور یہ تشنگی کسی تحقیقی تھیسز کے بعد ہی ختم ہوسکتی ہے۔
کہتے ہیں کہ، 1932 ع کی سردیاں زیریں سندھ اور خاص کر ٹنڈوباگو کیلئے بہتر ثابت نہیں ہوئیں، پیار علی جعفری جو لارینس مدرسہ کا شاگرد تھا اور ان دنوں، کراچی میں اپنے شب و روز گذار رہا ہے، وہ اپنی تحریر میں لکھتے ہیں:"۔۔۔سردیاں تھیں، 12 فروری 1932ع کو میں اسکول میں تھا اور ہم پڑھ رہے تھے، کہ اتنے میں میر صاحب کا ملازم چیختا پکارتا آیا۔ میر صاحب ہم کو چھوڑ گئے تھے، سارے لوگوں کو میں نے روتے پیٹتے دیکھا۔۔ایک قیامت برپا تھی۔۔جو سُنتا وہ سر پیٹنے لگتا۔"
میں نے 1932 کا کئلینڈر دیکھا، وہ جمع کا دن تھا۔
میں میر صاحب کی رہائش گاہ پر گیا، جہاں میر صاحب نے 1932ع، جمع کے دن اپنی گھر کی چھت کو آخری بار دیکھا تھا۔ میں نے بھی دیکھا۔۔ایک ٹوٹی پھوٹی، سرخ اینٹوں کی چودیواری، چودیواری کے اندر ایک خستہ سے گھر کے اُجڑے ہوئے نشانات۔ خاردار جھاڑیاں اور خاموشی اب اس عظیم انسان کے گھر کے آنگن میں اُگتی ہے۔ میں خاموش رہا۔۔کہ میر صاحب کی رہائش کی یہ حالت دیکھنے کے بعد کہنے کیلئے کچھ بچا ہی نہیں تھا۔
شام ہونے کو آئی تھی، اور مُجھے واپس لوٹنا تھا۔ لیکن میں ٹنڈو باگو کو، اُس فرشتے جیسے انسان کی آخری آرامگاہ پر حاضری دینے سے پہلے چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ میں نے دعا کیلئے ہاتھ اُٹھائے۔ آنکھیں تر ہوگئیں۔ امی صحیح کہتی تھیں۔ آسمان سے نیکیاں کرنے فرشتے زمین پر آتے ہیں۔