آتم ڪٿا / آٽوبايوگرافي

سپاھيءَ کان وفاقي سيڪريٽري تائين

محمد جمن ڄامڙي جي آتم ڪٿا خودنوشت سوانح حيات آهي، جيڪا سندس ذات جي تعميرات واري گرائونڊ زيرو کان فلڪ بوس عمارت تائين پهچڻ جي اڻ ڳاڻيٽن ڏاڪن جي اڏاوت ۽ ڊيڪوريشن  جي تجربن جو نچوڙ آهي. ڪتاب ”سپاهيءَ کان وفاقي سيڪريٽري تائين“ هڪ اهڙي ماڻھوءَ جي جفا ڪشي جو سربستو سچو داستان آهي، جنھن سنڌ جي ٺپ ٻھراڙي واري ڳوٺ ۾ جنم ورتو، گورنمينٽ جي ڦڪن اسڪولن ۾ پڙهيو، فوج ۾ سپاھ گيري ڪيائين، قائداعظم يونيورسٽي مان اعليٰ تعليم بہ حاصل ڪيائين تہ ننڍڙيون نوڪريون بہ ڪيائين ۽ انت ۾ پاڪستان جي ڪريم ڪلاس ۾ انٽري هڻڻ لاءِ ’سي ايس ايس‘ ڪيائين، ۽ سترهين گريڊ کان شروع ٿي 22 هين گريڊ يعني مائونٽ ايوريسٽ تي پهچي رٽائر ٿيو.

Title Cover of book سپاھيءَ کان وفاقي سيڪريٽري تائين

جنرل لیفٹینینٹ

مخاطب نے اردو کو خالص سندھی میں ادا کرتے ہوئے فون پر پوچھا ‘‘آپ کرنل الطاف صَاحَبّ ہیں؟’’ میں نے مثبت میں جواب دیا اور نہ پہچاننے پر معذرت کی تو فرمایا ‘‘میں منسٹری آف فائنانس سے جوائنٹ سیکرٹری عرض کر رہا ہوں۔’’ اللہ تعالیٰ، فرشتوں، کتابوں، رسولوں، قیامت، اچھی بری تقدیر، حیات بعد از ممات، مسلمانی کے لیے ضروری ایمانیات اور شہادت کی زندگی کے بعد فوجی کا اگر کسی بات پر پختہ یقین ہے تو شاید وہ چین آف کمانڈ ہے۔ اس لیے میں حیرت زدہ تھا کہ جنرل ہیڈ کوارٹرز (GHQ) کو ملوث کیے بغیر وزارتِ مالیات کو مجھ سے براہِ راست کیا کام پڑ سکتا ہے اور وہ بھی اتنے سینیئر لیول پہ؟ ہو سکتا ہے انہیں معلوم نہ ہو کہ اس بندۂ ناہنجار نے ابھی تک ایم بی اے یا مالیات کی کوئی تعلیم حاصل نہیں کر رکھی۔ پھر خیال آیا جس ملک میں میٹرک فیل وزیرِ اعلیٰ، ‘‘تَصَوُّفْ’’ کو ‘‘طَسُوْف’’ لکھنے والا تصوف کمیٹی کا ناخدا اور فالج زدہ زبان، بولنے سے معذور، اطالوی حسینہ کے ذریعے حکومت چلانے والا گورنر جنرل ہو سکتا ہے۔ وہاں پاکستان کو مالیاتی آلودگی سے نکالنے کے لیے مالیات سے نابلد انجنیئر پیر الطاف ہاشمی کا انتخاب کچھ ایسا برا بھی نہ تھا۔ میں ابھی خیالوں میں پاکستان کی مالیات کو درست سمت دینے کی پالیسیوں پر غور کرنے ہی والا تھا کہ آواز آئی ‘‘سائیں! مدینہ شریف سے صوفی نذیر سائیں میرے ہاں ٹھہرے ہوئے ہیں، انہوں نے آپ کو اطلاع دینے کا کہا ہے۔’’ میں خوشی سے اچھل پڑا اور جلدی سے ان کے گھر کا پتہ نوٹ کیا اور شام کو مقرر کردہ وقت پر ان کے ہاں پہنچ گیا۔
2002ء میں حیدرآباد سے محترمہ سیدہ منا ہاشمی نے کرنل حسیب ملک کی وساطت سے خوابوں کی تعبیر جاننے کے لیے رابطہ کیا، جن کے خوابوں سے اندازہ ہؤا کہ وہ توحیدِ الٰہی اور عشقِ رسولﷺ میں فنا حاصل کر چکی ہیں۔ میری بیٹیاں فروری 2018ء میں اُن کے آخری سانس تک اُن سے رہنمائی لیتی رہیں۔ انہوں نے مجھے 1948ء میں رحیم یار خان سے مدینہ منورہ منتقل ہو جانے والے اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے صوفی نذیر صاحب سے متعارف کرایا۔ وہ کبھی کبھار پاکستان تشریف لاتے۔ ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کے حبیبﷺ کا نام لیں تو ساتھ ہی آنکھیں راوی اور چناب بن جاتی ہیں۔ میری ان سے آخری ملاقات دسمبر 2018ء میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ اِس وقت ان میں چلنے پھرنے کی سَکت نہیں رہی اور یادداشت بھی متاثر ہو چکی ہے، لیکن روحانی کیفیات اور مہمان نوازی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔
‘‘سر! میں جنرل لیفٹینینٹ بنوں گا۔’’ کوہاٹ کے سگنلز تربیتی مرکز کی تیکنیکی تربیتی بٹالین کے کمرۂ جماعت میں پڑھاتے ہوئے کپتان صاحب کے سوال کے جواب میں سندھ کی دور دراز گمبٹ تحصیل کے گاؤں حاجی غلام جعفر جامڑو سے فروری 1971ء میں کلرک بھرتی ہو کر آنے والے رنگروٹ نے جواب دیتے ہوئے کہا۔ کپتان صاحب اس نئے رینک کی ‘‘ایجاد’’ پر قہقہہ لگا کر ہنسے ‘‘یہ جنرل لیفٹینینٹ نہیں، لیفٹینینٹ جنرل ہوتا ہے۔’’ 1970ء کے میٹرک پاس رنگروٹ کو یہی معلوم تھا کہ وہ افسر بھرتی ہو گیا ہے، بس اب ترقی کرتے کرتے لیفٹینینٹ جنرل بن جائے گا۔ معصوم ذہن میں جرنیلی سجائے اگست 1972ء میں تربیت مکمل ہونے پر کوئٹہ کی ری انفورسمنٹ ونگ نمبر 4 (Reinforcement Wing No.4) (RIW) میں بھیجا گیا جو بعد میں 48 کمپوزٹ سگنلز یونٹ میں تبدیل کر دی گئی۔ اس عرصہ میں وہ ترقی پا کر لانس نائک کلرک بن چکا تھا لیکن جرنیلی نہیں بھولا۔ وقت کے ساتھ عقدہ کھلا کہ جرنیلی کے لیے F.A کے بعد ISSB پاس کر کے پاکستان ملٹری اکیڈمی (PMA) میں دو سال کی تربیت کامیابی سے مکمل کر لینے کے بعد نیم لفٹینی لگتی ہے جو جرنیلی کا پہلا زینہ ہے۔ یہ کچھ کرنے کے لیے اس یونٹ کو کراچی پہنچا کر 1974ء میں 1971ء کے جنگی قیدیوں کی واپسی مکمل ہونے پر افسروں کی مِنت ترلا کر کے یہ لانس نائک کلرک فوج سے خدا حافظ کہلوانے میں کامیاب ہو گیا۔
اسی جرنیلی جذبے نے اس پینڈو سندھی کو 1972ء میں پرائیویٹ F.A کروا کے تنتالیسویں (43) لانگ کورس کے لیے درخواست دلوا دی مگر ڈاکٹر نے آنکھوں کی کسی خرابی کی بنا پر فوج کے لیے نااہل قرار دے دیا، جبکہ اِس وقت 67 برس کی عمر میں بھی بغیر شیشوں کے پڑھ لیتا ہے۔ یہاں سے ناامید ہو کر ‘‘سول جرنیلی’’ کا رخ کر لیا اور اس کے حصول کی خاطر 1974ء میں بحیثیت پرائیویٹ امیدوار B.A کیا۔ پڑھائی کی فیسیں اور پیٹ کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے فروری 1975ء میں پاکستان اسٹیل ملز میں بطور جونیئر کلرک نوکری کر لی لیکن یہ ملازمت سول جرنیلی کا زینہ ثابت ہونے کی بجائے راستے کا پتھر بننے لگی چنانچہ ایک سال بعد نوکری کو خیرباد کہہ کے 1976ء میں سندھ یونیورسٹی سے L.L.B اور 1978ء میں قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ماسٹرز کرنے کے ساتھ ساتھ C.S.S کا امتحان پاس کر کے ضلعی انتظامی گروپ (District Management Group) حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
دسمبر 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے ابتدائی عرصہ میں یہ قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ماسٹرز کر رہا تھا تو ان کی کلاس کے طلبا و طالبات اور اساتذہ نے برفباری سے لطف اندوز ہونے کے لیے مری جانے کا پروگرام بنایا۔ گاڑیوں کے اس قافلے کی سب سے اگلی اور شاندار گاڑی ان کی کلاس فیلو اور سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کی ہمشیرہ محترمہ سعدیہ عباسی کی تھی، جس میں ان کے ہمراہ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر پرویز اقبال چیمہ مرحوم اور ایک بریگیڈیئر صاحب کے صاحبزادہ صاحب ڈرائیونگ کر رہے تھے جو سب اچھے کپڑوں میں ملبوس تھے۔ اس سندھی نوجوان نے سر پر قیمتی سندھی ٹوپی کے ساتھ خوبصورت اجرک کندھوں پر سجا رکھی تھی۔ جیسے ہی یہ لوگ مری میں مال روڈ پر اترے تو ڈیوٹی پر کھڑا پولیس افسر اس نوجوان کو سندھی وڈیرہ یا گدی نشین اور ان کے امیر اور بلند عہدہ دار ہمراہیوں کو ان کے ملازم یا مرید وغیرہ سمجھ کر بھاگ کر اس کے پاس آیا اور سیلوٹ کر کے بڑے احترام سے کہنے لگا ‘‘سر! ایران کے
وزیرِ دفاع آئے ہوئے ہیں اگر آپ مہربانی فرما کر گاڑیاں نیچے کھڑی کر دیں تاکہ غیر ملکی مہمانوں کے لیے ٹریفک کا مسئلہ نہ ہو۔’’ اس نے پولیس مین کی کیفیت بھانپ لی اور بے نیازی سے کہا ‘‘اچھا میں دیکھتا ہوں۔’’ ان کے تمام ساتھی اس منظر پر کھڑکھڑا کر ہنس پڑے۔ یہ وہ وقت تھا جب اس سندھی طالبعلم کے بقول اس کے پاس پرانی سائیکل بھی نہیں تھی۔
پہلی اولاد اور پہلے عہدے کا مزہ مرنے تک نہیں بھولتا۔ سگنلز کور کے دیہاتی سندھی رنگروٹ کے لیے 1981ء میں سترہ گریڈ کے سیکرٹری ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی سکھر کا عہدہ سول جرنیلی کی پہلی سیڑھی ثابت ہوا۔ پھر زندگی کی گاڑی مختلف سٹیشنوں پر رکتی ہوئی آگے بڑھتی رہی۔ اسسٹنٹ کمشنر نواب شاہ و شہدادکوٹ، اٹھارویں گریڈ میں ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ و نواب شاہ، انیسویں گریڈ میں لمبا قیام ڈپٹی کمشنر تربت و خضدار، ایڈیشنل سیکرٹری زراعت بلوچستان، ڈائریکٹر جنرل ماحولیات، ڈائریکٹر مالیات بلوچستان ترقیاتی اتھارٹی، ایڈیشنل ہوم سیکرٹری سندھ، بیسویں گریڈ میں ڈائریکٹر مالیات و برآمدات پروسیسنگ اتھارٹی، پاکستان کا اکلوتا بے وردی انسپکٹر جنرل برائے اسٹیمپ سندھ، ڈی سی او تھرپارکر و جیکب آباد، جوائنٹ سیکرٹری وزارتِ تجارت و وزارتِ مالیات، جوائنٹ سیکرٹری وزیرِ اعظم، اکیسویں گریڈ میں ایڈیشنل سیکرٹری وزارتِ تعلیم، ایڈیشنل سیکرٹری وزیرِ اعظم، بائیسویں گریڈ میں سیکرٹری بین المذاہب اور قومی ہم آہنگی بڑے سٹیشنوں میں شامل تھے۔ یہاں تک کہ یہ بُلٹ ٹرین 27 جولائی 2012ء کو خانہ نشینی (ریٹائرمنٹ) کے آخری سٹیشن پر جا کر لنگر انداز ہو گئی۔
گورے کے دور میں C.S.S افسروں کو دورانِ تربیت چھ ماہ کے لیے فوج کے ساتھ وابستہ (Attach) کیا جاتا تھا، جو بعد میں کم کر کے تین ماہ کر دیا گیا۔ اس وابستگی کے لیے ان کے نام 31 پنجاب رجمنٹ نکلی جس میں کرنل (بعد میں لیفٹینینٹ جنرل اور کمانڈر 10 کور) سلیم حیدر سی او (Commanding Officer) اور میجر فاروق کمپنی کمانڈر تھے۔ ان دونوں افسروں نے بھرپور انداز میں تین مہینوں میں لڑاکا بٹالین اور فوج کے طریقہ ہائے کار، افسروں کے رہن سہن اور جوانوں کے ساتھ تعلق پر سکھلائی کرائی۔ فوج میں تربیت کرنے میں سخت افسر اُس وقت جتنے برے لگتے ہیں بعد میں ساری زندگی کے لیے ان سے اتنا ہی پیار ہو جاتا ہے۔
1994ء میں یہ سندھی رنگروٹ انیسویں گریڈ میں بلوچستان کے ڈائرکٹر جنرل تحفظ ماحولیات کی حیثیت سے ماحولیات پہ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے پشاور آیا تو 31 پنجاب کے میجر فاروق کو فون پر پشاور آمد کی اطلاع دی، جو اس وقت بحیثیت میجر جنرل کوہاٹ میں جی او سی (General Officer Commanding) تعینات تھے۔ انہوں نے فورًا کوہاٹ آنے کے لیے گاڑی بھیج دی۔ یہ پشاور سے کوہاٹ کے لیے روانہ ہوئے تو معلوم ہؤا کہ ہوٹر بجاتی ایک گاڑی سندھی رنگروٹ کے آگے اور ایک پیچھے ہے۔ کوہاٹ میں جنرل فاروق نے استقبال کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی یونٹ بھی کوہاٹ ہی میں ہے اور وہاں تمام افسروں کے ساتھ ملاقات کرانی ہے جس کے لیے انہوں نے سی او کو بتا رکھا ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان، صنفِ نازک ہو یا صنفِ آہن، پہلی محبت نہیں بھولتے بس انسان ہونا شرط ہے۔ اس کے سر پر وہی محبت عود کر آئی چنانچہ اس نے مطالبہ کیا کہ وہ یونٹ جانے سے پیشتر سگنلز تربیتی مرکز کا چکر لگانا چاہتا ہے، جہاں وہ رنگروٹ ‘‘افسر’’ بھرتی ہو کر آیا تھا۔ جنرل فاروق نے کمانڈنٹ کو فون کیا، جو بلحاظ عہدہ بریگیڈیئر ہوتا ہے، کہ میرے ایک بہت خاص مہمان ہیں جنہیں آپ کے مرکز کا چکر لگوانا ہے۔
چنانچہ سی او 31 پنجاب کے ہمراہ وہاں پہنچنے پر کمانڈنٹ نے استقبال کیا جنہیں اس وقت تک اس سویلین سندھی افسر کی تاریخ کا علم نہ تھا۔ افسروں سے ملاقات کے بعد انہوں نے وہیں سے بریگیڈیئر صاحب کو انگلی کے اشارے سے بتایا کہ میں سامنے والے دفتر میں بطور سپاہی کلرک بیٹھا کرتا تھا اور آپ کے دفتر کے سامنے سے گزرتے ہوئے ہم پاؤں سر پر رکھ لیا کرتے تھے، مبادا ہمارے پاؤں کی آہٹ بریگیڈیئر صاحب کی طبعِ نازک پہ مزاجِ یار کی طرح گراں گزرے۔ کل کا رنگروٹ اپنی رنگروٹی والی جگہ پر کمانڈنٹ کے جَلو میں ڈائرکٹر جنرل بنے قدرت کے ناقابلِ یقین فیصلوں کو تکتے ہوئے اپنی آنکھوں سے آنسو اور کمانڈنٹ اپنی پیشانی سے حیرت، کوشش کے باوجود نہ چھپا پائے۔ یہ سندھی رنگروٹ کی زندگی کا سب سے قیمتی اور یادگار لمحہ تھا۔
وہاں سے اپنی دوسری محبت 31 پنجاب پہنچے۔ کیا منظر ہو گا کہ فوج کے سابق سپاہی اور آج کے بے وردی افسر کو باوردی افسر اور سردار صاحبان سیلوٹ کر کے اسقبال کر رہے تھے۔ انہیں بتایا گیا کہ یونٹ میں سندھی زیادہ ہیں یہاں تک کہ صوبیدار میجر بھی سندھی ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ سندھی بہت اچھے مجاہد ہیں۔ ہر کام سینیئر کی تشفی کے مطابق کرتے ہیں صرف او ایس ایل (Over Stay Leave) (چھٹی جا کر واپس دیر سے آنے) کا مسئلہ ہے۔ چنانچہ ان کی ملاقات سندھی مجاہدوں سے کرائی گئی جن سے انہوں نے تشویقی (Motivational) گفتگو کی۔
فوجی رنگروٹ سے بائیسویں گریڈ کی سول جرنیلی حاصل کرنے والا یہ پہلا، واحد اور اکلوتا پاکستانی محمد جُمن جعفر جامڑو ہے۔
1989ء میں جمن صاحب جب ڈپٹی کمشنر نواب شاہ تھے تو انہیں سٹیل مل جانے کا اتفاق ہؤا جہاں یہ جونیئر کلرک کی ڈیوٹی کرتے رہے تھے۔ وہاں کے جنرل مینیجر شہداد سیال اور ناظم انسانی وسائل (Manager Human Resource) ایک کرنل صاحب نے انہیں از حد عزت افزائی کی۔
1992ء میں بحیثیت ڈی سی تربت تعیناتی کے دوران ایک دن گورنر بلوچستان سردار گل محمد خان جوگیزئی کا تربت آنے کا اچانک پروگرام موصول ہؤا۔ انہوں نے ڈویژنل انجنیئر (D.E) فونز سے سرکٹ ہائوس کے وی آئی پی روم میں فوری فون نصب کرنے کا کہا جس پر D.E نے انکار کرتے ہوئے جواب دیا کہ ٹیلیفون ابھی سرکاری محکمہ نہیں رہا اس لیے ڈیمانڈ نوٹس اور فیس جمع کرائے بغیر فون نہیں لگ سکتا۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ آج چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے یہ کاروائی کل مکمل کر دی جائے گی آپ فون نصب کر دیں۔ اچھے میل ملاپ رکھنے والے D.E کے نپے تلے انکار پر انہوں نے اس سے ایک بار پھر فون لگانے کے لیے سماجت کی جسے D.E نے کچھ سخت الفاظ میں جھٹک دیا ‘‘میں ٹیلیفون نہیں لگا سکتا اور آپ میرا کچھ کر بھی نہیں سکتے کیونکہ میں فیڈرل گورنمنٹ کے ماتحت ہوں۔‘‘
خانہ نشین فوجی کہتے ہیں بندہ فوج سے نکلتا ہے، فوج بندے سے نہیں نکلتی۔ چنانچہ جمن بھی اس لمحے فوجی بن گئے ‘‘جناب! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ اس وقت صوبائی حکومت کے علاقے میں ہیں۔’’ اس نے تُرکی بہ تُرکی جواب دیا ‘‘میرا دفتر وفاقی سرکار کے ماتحت ہے۔’’ انہوں نے فوجی لہجے میں کہا ‘‘جی بالکل تمہارا دفتر مرکزی حکومت کا حصہ ہے لیکن دفتر سے باہر نکلتے ہی تم حکومتِ تربت کی حدود میں داخل ہو جاؤ گے تو تمہیں بےجا مداخلت (ٹریس پاس) کے جرم میں گرفتار کر لیا جائے گا۔’’ ساتھ ہی نائب تحصیلدار کو حکم دیا کہ لیوی (پولیس) کے اہلکار لے جا کر D.E فونز کو اطلاع پہنچا دے کہ دفتر کی حدود سے قدم باہر رکھتے ہی اسے گرفتار کر کے جیل پہنچا دیا جائے گا۔ ایک طرف فون نہ لگنے تک D.C کی بالارادہ خاموشی اور دوسری جانب یقینی گرفتاری نے D.E کو فون لگانے پر مجبور کر دیا۔ تھوڑی دیر میں سرکٹ ہائوس سے کیئر ٹیکر نے فون پر اطلاع دی کہ متعلقہ کمروں میں دو کی جگہ تین فون نصب کر کے ایک آپریٹر ڈیوٹی پر مامور کر دیا گیا ہے۔ ڈویژنل انجنیئر کی ڈپٹی کمشنر سے دو گھنٹے کی کاوش کے بعد بات ہوئی تو گھبراہٹ میں کہنے لگا ‘‘سر! حکم کی تعمیل ہو گئی ہے، مہربانی کر کے نائب تحصیلدار سے کہو کہ میری جان آزاد کرے۔’’
اس واقعے کے چار پانچ ماہ بعد سیشن جج تربت نے ان سے کہا کہ ان کے نئے تعمیر شدہ سرکاری گھر میں فون نہ ہونے کی بنا پر آفس ٹائم کے بعد ہائی کورٹ سے اکثر رابطے کی ضرورت پڑنے پر مشکل پیش آتی ہے۔ D.E کے مطابق اس علاقے میں D.P نہیں ہے جس کے آنے میں مزید ایک مہینہ یا اس سے اوپر کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ جج صاحب سے شرط طے ہوئی کہ فون لگنے کی صورت میں D.E کی سفارش نہیں کریں گے۔ D.C نے آفس سپرنٹینڈنٹ کے ذریعے پیغام دلوایا کہ سیشن جج کے گھر فون لگا کر اطلاع دیں تاکہ تربت سرکار جیسا کوئی قانون حرکت میں نہ آ جائے۔ آدھ گھنٹے بعد فون لگنے کی اطلاع موصول ہو گئی۔ D.E نے سیشن جج کے دفتر میں ڈیرہ ڈال دیا کہ جب تک معافی لے کر نہیں دیتے وہ دفتر میں ہی بیٹھا رہے گا۔ چنانچہ انہوں نے ڈپٹی کمشنر سے معافی لے کر دی۔
2005ء میں ایک جمعہ کی دوپہر صوفی نذیر صاحب کی زیارت کے لیے جمن صاحب کے ہاں حاضر ہؤا تو وہاں سی ڈی اے (Capital Development Authority) کے ڈائریکٹر جنرل سلیمان سہتو بھی موجود تھے۔ صوفی صاحب نے ان دونوں سے داڑھی رکھنے کا کہا۔ سلیمان صاحب نے تسبیح تھاما دایاں ہاتھ سینے پر رکھا اور کہا ‘‘سائیں! جو شیو کر لی ہے یہ آخری ہے۔’’ جمن صاحب نے ہلکا سا سر ہلایا تو صوفی صاحب نے فرمایا ‘‘جمن! تم جاؤ اور میری بیٹی کو بلا کر لاؤ، تمہاری مشکل آسان کر دوں۔’’ جمن صاحب گئے اور بھابی صاحبہ کو بلا لائے۔ صوفی صاحب نے انہیں کہا ‘‘بیٹی! میں جمن کو داڑھی رکھوانے لگا ہوں، تمہاری اجازت کی ضرورت ہے، تم اجازت دے دو تمہیں بھی ثواب ملے گا۔’’ اس جنتی خاتون نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر کہا ‘‘آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔’’ جمن صاحب کی وہ آخری شیو تھی۔ صوفی صاحب نے بتایا کہ حدیث مبارک میں وارد ہؤا ہے کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک سنت زندہ کرنے پر سو شہیدوں کا ثواب ملتا ہے۔ یہ کہہ کر فرمایا ‘‘یاد رکھو! سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ایک شہید ہیں۔’’ صوفی صاحب کے حکم پر جمن صاحب نے مئی 2001ء میں منزلوں کے ساتھ قرآنِ پاک کی تلاوت کا آغاز کیا۔ تب سے جمعہ کے روز قرآنِ مجید شروع کر کے ساتویں دن جمعرات کو مکمل کرتے آ رہے ہیں۔ اگر کبھی ناغہ ہو جائے تو اگلے دن پورا کرتے ہیں۔
سپاہی سے جرنیل بننے کا اعزاز بہت لوگوں کے مقدر میں لکھا تھا، لیکن سپاہی سے وفاقی سیکرٹری بننے کا انعام اللہ تعالیٰ نے ابھی تک صرف محمد جمن جامڑو کے نصیب میں ہی لکھا ہے۔ انہوں نے ترقی، منزلِ مقصود کے حصول اور نئی منزلوں کے متلاشیوں کے لیے اپنی جدوجہد پر مبنی ‘‘سپاہی سے وفاقی سیکرٹری’’ کے نام سے سندھی میں کتاب لکھی ہے، جس میں میرا یہ مضمون اردو اور سندھی میں شامل ہوا ہے۔ اس کتاب کے مسودے کا اردو ترجمہ جاری ہے جو جلد شائع ہو جائے گا۔ اس کتاب میں انہوں نے جو پیغام دینے کی کوشش کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ منزل کے حصول کے لیے اسباب کی کمی کی بجائے مسبب الاسباب پر کامل بھروسہ، ہمت، محنت اور لگن سے گامزن رہنا:
یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

بلند سے بلندتر پرواز کی لگن سے بھرپور، مقصد کے حصول کے لیے انتھک محنت کے عادی جمن کے لیے خانہ نشینی میں فراغت کی زندگی گزارنا نہ صرف بے چین روح کے ہم مزاج نہ تھا بلکہ پرواز میں کوتاہی کا سبب اور صحت کے لیے نہ راس آ سکنے کا بہانہ بھی تھا۔ لہٰذا جھپٹتے، پلٹتے، پلٹ کر جھپٹتے رہے تاکہ گرم لہو سرد نہ ہونے پائے۔ ہمت و ترقی کی دنیا کا یہ شاہین آشیانے کا قائل نہ ہو سکا، چنانچہ کچھ مصروفیتیں اپنائیں، آزمائیں، چھوڑیں اور پھر نئی منزلوں کی طرف گامزن ہو رہا۔ انہی تجربات سے گزرتے ہوئے بالآخر سندھ کے پسماندہ صوبے اور پسے ہوئے سندھی عوام کی ترقی کی خاطر قائم کی جانے والی دو تنظیموں میں شرکت اختیار کر کے رضاکارانہ خدمت میں مصروف عمل ہے:
پہلی رجسٹرڈ تنظیم بصیرتِ سندھ (The Sindh Vision) ہے۔ جس کے تقریباً 77 ہزار اراکین ہیں، جس کا مقصد حکومت کو بڑے مسائل کی نشان دہی کرنے کے علاوہ ان پر تحقیقی کام کر کے اس کے عملی حل پیش کرنا ہے۔ یہ تنظیم چنے ہوئے مسائل پر سیمینار منعقد کر کے اس میں پڑھے جانے والے تحقیقی مقالے حکومت اور عوام کے سامنے رکھتی ہے۔ مارچ 2018ء میں کراچی میں تھر کول پر تحقیق کرنے کے بعد یہ رائے قائم کی کہ اس کے فائدے زیادہ اور محدودات نہایت کم ہیں، جس کے نتیجے میں اس منصوبے کی مخالفت میں واضح کمی آ گئی ہے۔ ایک سیمینار نومبر 2018ء میں پانی کے ذرائع کی تلاش (Tapping of Water Resources) کے عنوان سے منعقد کیا گیا، جس میں پڑھے جانے والے مقالے (Dams and Barrages in Focus: Reservations of Small Federating Units) کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں۔
بصیرتِ سندھ کے تقریبًا 2 ہزار رجسٹرڈ اراکین میں سے کچھ لوگ رضا کارانہ ہزار روپیہ ماہانہ حصہ ڈالتے ہیں، جس سے تنظیم کے اخراجات اٹھائے جاتے ہیں۔ جمن صاحب اس کی چھ رکنی مجلسِ انتظامیہ (Executive Council) کے رکن اور شعبہ مالیات کے سربراہ ہیں۔ 5 اکتوبر 2019ء کو ‘‘سندھ کے مسائل پر مکالمہ’’ (Dialogue on Sindh Issues) کے عنوان سے سیمینار منعقد کیا گیا، جس میں سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین، سابق چیئرمین بورڈ آف انویسٹمینٹ سید محب اللہ شاہ، وزیرِ اعظم کے سابق پرنسپل سیکرٹری اور سابق سی ای او اینگرو شمس الدین شیخ جیسے لوگوں نے خیالات کا اظہار کیا۔ اس سیمینار میں پڑھے جانے والے مقالہ جات حکومت اور عوام کے سامنے پیش کیے جانے کے لیے ترتیب اور اشاعت کے مراحل طے کر رہے ہیں۔
دوسری تنظیم 1971ء میں سندھی شہریوں کی سماجی بہبود
(Social Welfare) کے لیے قائم ہونے والی سندھ گریجوئیٹس ایسوسی ایشن (Sindh Graduates Association) (SGA) سگا ہے۔ کوئی بھی سندھی گریجوئیٹ اس کا رکن بن سکتا ہے۔ سگا کی اسلام آباد شاخ کے صدر یہی جمن جامڑو ہیں۔ نوکری کے لیے سندھ سے اسلام آباد منتقل ہونے والی خواتین کا سب سے بڑا مسلہ رہائش ہوتا ہے۔ چنانچہ جمن صاحب کے زیرِ نگرانی تقریبًا اَسی (80) خواتین کے لیے اقامت خانہ (ہوسٹل) کی تعمیر آخری مراحل میں ہے۔ اس اقامت خانہ کی تعمیر کے اخراجات کے لیے حکومتِ سندھ کو قائل کیا گیا، جبکہ روز مرہ کے اخراجات سگا کے اراکین برداشت کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
چند دن قبل جمن جامڑو غریب خانے پر تشریف لائے تو میں نے اپنی مصروفیات کا ذکر کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ میں آج کل سورۃ النساء کا ترجمہ اس انداز میں کرنے کی کاوش کر رہا ہوں کہ میڑک پاس آدمی پڑھے تو اسے مطلب سمجھنے کے لیے تفسیر یا حاشیہ نہ دیکھنا پڑے۔ اس کی تکمیل کے بعد سورۃ المائدہ، سورۃ الاحزاب اور سورۃ النور کا ترجمہ کا بھی ارادہ ہے۔ انہوں نے دلچسپی کے ساتھ کچھ آیات کا ترجمہ سنانے کو کہا۔ یہ ترجمہ تین تراجم کے ساتھ موازنہ کر کے سنایا تو بہت خوش ہوئے اور اپنے ارادے کا اظہار کیا کہ وہ اسی ترجمہ کو سندھی زبان میں منتقل کریں گے۔ ان شاء اللہ ترجمہ مکمل کر کے دو علماء کو دکھا کر جمن صاحب کو سندھی ترجمہ کے لیے پیش کر دوں گا۔ ان کے ترجمہ میں اردو اور سندھی دونوں ترجمے شامل ہوں گے۔
کیا کوئی شخص تصور کر سکتا ہے کہ خالق کی حسین ترین اور محبوب ترین مخلوق کی بے لوث خدمت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ انعامِ عظیم سے محروم رکھے؟ اللہ تعالیٰ نے انہیں آقاءِ دو جہان، ہر مسلمان کے دل و جان، حضرت محمد مصطفٰےﷺ کی گارڈ ڈیوٹی کی سعادت نصیب فرمائی۔ پیر الطاف ہاشمی کو خالقِ کائنات نے اَن گنت نعمتوں میں سے ایک نعمت اس شخصیت کے ساتھ تعلق کی صورت میں عطا فرمائی۔

کرنل (ر) پیر الطاف ہاشمی
22 اکتوبر 2019ء
22 صفر 1441ھ