غزل
دل لگانے کے بدلے
سزا تونے دی دل لگانے کے بدلے،
مجھے پیار اپنا جتانے کے بدلے۔
نراسا کیا دل کو اس میں مچایا،
غموں کا طلاطم ہنسانے کے بدلے۔
نگہدار تجھ کو کیا میں نے دل کا،
اجاڑا اسی کو بسانے کے بدلے۔
تمہارے ہی قدموں کو ہے چومنا سر،
جھکاتا رہوں گا اٹھانے کے بدلے۔
فقیروں کی کٹیا کو تھامے ہی رکھتے،
مناسب بنانا گرانے کے بدلے۔
تمہیں تھا مناسب اسی دل سے کرنا،
وفائیں پیارے دُکھانے کے بدلے۔
ملیگا نہیں تجھ کو یہ یاد رکھنا،
سدا غم ہی میرے رلانے کے بدلے۔
نتائج تو ’صوفی‘ هيں الٹے ہی نکلے،
خفا وہ ہوئے دل ملانے کے بدلے۔
*