اعتقاد تو ہے مگر مفلسی غریبی میں سواۓ درد پر اثر تو ہے،
اپنی ہے جنگ آپس میں تباہ کروں تو کیا یہ اپنا گهر تو ہے۔
کہین دیکھۓ کہ رقیب کرے نہ شکوہ ممگر گلاوشکوہ میں کوئی صبر تو ہے۔
اے مغرور صنم دنیا تو کرتی ہے ظلم، ظلم وجدت ان کے ہاتھون میں تیغ و تبر تو ہے۔
کیا رقیب محبت بگڑ جاۓ توایک بات ہے
ان کو خفے و ذلیل کروں اتنا زور و زبر تو ہے
مگر آزاد صدقہ صنم ہر بات برداش فرام،وش ہے،
آخر دکھ پانے والا ہمارا جگر تو ہے۔