رقیب پہ دیتے تھے گِلا کہ محبت کا یہ دشمن ہے،
مگر تو آپ بدل گۓ کیوں نہ بلبل وہ نہ چمن ہے۔
کہانی کہتے کہتے تو کہہ گۓ کہ پیار ہے تجه سے،
کیا کروں افسوس ہوتی ہے کہ یہ کس کا سُخن ہے۔
ہاں کس کیلۓ مٹاتے ہو وفا میری و سدا میری،
تمہاری دل نہ جاۓ کہیں اور پہ شکن ہے۔
گردش جنوں میں گذرا میں و نوہہ گر بن گیا اس دن،
جب کہہ دیا تونے سب کو دیکھو اس کی دل کی مگن ہے۔
یہاں آزاد یاد کریگا قسم سے یاد محبت وہ،
پھر وہ گذرا زمانہ نہ آئے گا کیوں کہ حسرتِ دل دفن ہے۔