لادوا کیا ہے اس مرض کو وہ طبیب آخر کیا کرے؟
کیا کرے تو کوئی کیا کرے کوئی دوست و حبیب آخر کیا کرے؟
جو قسمت میں لکھا کریم نےاس قلم کا آخر کیا قصور،
بر گزیز جلوہ گری اللہ کے آگے شریف و غریب آخر کیا کرے؟
خاص مرسل خاص انبیاِ خاص اولیا جابجا،
اس پردے مٹانے کیلۓ مکر و فریب آخر کیا کرے؟
جو روئیں گے وہ بھی مریں گے، جہاں آخر فنا ہے،
تسلےٰ ملے گی تو کیا کریگی زینب آخر کیا کرے؟
فتح علی تو قیامت میں حشر میں اللہ کے آگے ستو ہے،
آزاد زبان پر ہو تو کلمہ ہو ابلیس رقیب آخر کیا کرے؟
نوٹ:- 3 محرم جمعرات کے دن 26 جولاۓ 1993 میں
غزل لکھی گئی- فتح علی ولد عبدالحکیم کے انتقال کے
تین دن آگے یہ غزل لکھی گئی اور اس کی وفات
29 جولاۓ 1993- 6 محرم الحرام
پیر کی رات ہوئی تھی ۔