نہ پوچھ داستان میری، کہ کشمکش زندگانی مر مر کے کاٹی ہے،
جو بھی چند دن تھے عمر بھر کے، دل یاد کر کہ روجاتی ہے۔
ہوئی تھی رات تنہائی ٹھنڈی موسم، ہوئی تھی بات کی آرزو،
جو کر نہ سکے دھڑکن سے، اب بھی حسرت یاد آتی ہے۔
گذرا ہوا فسانہ کبھی ناپید لگتا ہے اب ان کے ستانے سے،
کیوں کہ ستارہ ٹوٹا بنے کیسے گر قسمت جام لاتی ہے۔
بدن گر ہے زندہ تو روح کی ضرور ہوتی ہے پھر دکھ یا سکھ،
اگر ایسا ہوتا ہے دکھ سے دل کیوں گهبراتی ہے۔